بظاہر اقتدار کی حامل ایک ایسی شہری کلاس سے بات چیت کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا جس نے ظالمانہ طور پر ہمیں تاریخ میں بند کردیا تھا جبکہ وہ خود آرام سے مغربی زندگی کے حصول کیلئے کوشاں رہی۔ یہ احساسِ دوری اس وقت مزید گھاؤ کا باعث بن گیا جب نوّے کی دہائی میں بھارت نے عالمگیر سرمایہ داری کو گلے لگایا ، بشمول ان امریکی اخلاقی اقدار جو انفرادیت پر مبنی تھی، اس پس منظر میں جہاں ایک بڑی دیہی آبادی نے بھی شہروں کا رخ کرنا شروع کردیا۔سٹیلائٹ ٹیلیویژن اور انٹر نیٹ کی بھر مار نے دولت اور اصراف کے ایسے خوابوں کو جنم دیا جو پہلے کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھے، جبکہ ساتھ ہی عدم مساوات، کرپشن اور اقربا پروری میں زبردست اضافہ ہوتا رہا اور بھارت کی غیر متغیر سماجی تنظیم مزید مضبوط ہوگئی۔ لیکن کسی سیاسی رہنما کو یہ ہنر نہیں آیا کہ وہ بھارت کی آزادی کے بعد براجمان اس اشرافیہ کے خلاف دیر سے سلگتی اس غضبناکی کا رخ ان لوگوں کیطرف موڑ دے جنہوں نے سماجی ترقی کی شاہراہ پر روکاوٹیں کھڑی کردی تھیں۔ یہانتک کہ دو ہزار دس کے اوائل میں نریندر مودی سیاسی ذلت سے نکل کر سامنے آیا اور اس نے میرٹ کا نعرہ لگایا اور ساتھ ہی وہ موروثی مراعات پر حملہ آور ہوا۔
بھارت کی انگریزی کی دلدادہ اشرافیہ اور مغربی حکومتوں نے مودی کی شخصیت کو داغدار کررکھا تھا جس کی بنیادی وجہ اس کی اپنے دور وزارت اعلی میں دو ہزار دو میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ممکنہ شرکت اور اس کی حکومت کا براہ راست اس سے صرف نظر کرنا تھا۔ لیکن بھارت کے امیر ترین لوگوں کی مدد سے مودی دوبارہ کھلی سیاست میں واپس آگیا۔ دو ہزار چودہ کے چناؤ سے پہلے اس نے خود کو پْر امید بھارتیوں کے سامنے ایک مسحور کن ، بہادر اور نڈر لیڈر کے طور پر پیش کیا جو محنت اور مشقت کے ذریعے اس مقام پر پہنچا تھا۔ اس نے شروع سے احتیاط کیساتھ خود کو بے خانماں لوگوں کے سامنے ان جیسا بنا کر پیش کیا: ایک خود ساختہ فرد جس کے سامنے ان لوگوں نے روکاوٹیں کھڑی کیں جو متکبر ہیں، اخلاق باختہ اشرافیہ میں سے ہیں، اور جو غدار مسلمانوں کی خوشنودی کی خاطر خاک نشیں ہندووں پر ذلت و رسوائی کی دھول ڈالتے رہتے ہیں۔اپنی چھپن انچ چوڑی چھاتی پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ کہتا تھا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ بھارت کو بین الاقوامی سپر پاور میں بدل دونگا اور ہندوؤں کو تاریخ کے عظیم بہاؤ میں شامل کردوں گا۔دو ہزار چودہ سے مودی کی منفرد قابلیت، جس میں وہ افسانوی واقعات تخلیق کرتا ہے، اس میں کئی گنا اضافہ اس وقت ہوا جب ٹرولز سے مغلوب سماجی میڈیا ، ستائش پسند اخبارات اور میڈیا اس میں شامل ہوگئے۔ بھارت کی آن لائن آبادی مودی کے پانچ سالوں میں دوگنی ہوگئی۔ سستے اسمارٹ فونز کے ذریعے غریب ترین عوام بھی جعلی خبروں کا شکار ہوگئے جوفراوانی سے فیس بک، ٹوئٹر ، یو ٹیوب اور واٹس ایپ پر ملتی ہیں۔مودی کو انتخابی مہم میں سب سے بڑی کامیابی اس جعلی خبر سے ملی جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس کے ہوائی حملے نے سینکڑوں پاکستانیوں کو نیست و بابود کردیا۔اور یہ کہ اس نے پاکستانیوں کو اس حد تک خوفزدہ کردیا کہ انھوں نے اس بھارتی پائلٹ کو واپس کردیا جس کو پکڑ لیا تھا۔ مودی کو اس بات کا غیر معمولی علم ہے کہ لاکھوں غریب اور نیم خواندہ بھارتیوں کو اسمار ٹ فون کا اسکرین بے پناہ کشش کیساتھ خوابوں اور افسانوں کی ایک حیران کن دنیا کیطرف کھینچ رہا ہے۔ ابتدائ سے ٹوئٹر کے فن میں مہارت حاصل کرنے والا، بالکل ڈونالڈ ٹرمپ کیطرح، مودی مسلسل کیمرے کے سامنے کھڑا رہتا ہے، اکثر بھڑکتے لباس میں۔ مغربی تعلیم یافتہ اور جذبات سے عاری لیڈروں کے بعد جو کئی دہائیوں تک حکمرانی کرتے رہے، مودی ڈیجیٹل میڈیا کے مساواتی نمائشی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی غربت زدہ زندگی کی کہانی اور اوبامہ سے رومانس کا ذکر مساوی آسانی سے کرتا ہے۔
گذشتہ ہفتے سادھو کا کے روپ میں زعفرانی لباس پہن کر اس نے ہندوؤں کی تیرتھ غار میں کھڑے ہوکر تصویر بنوائی جس کا انگریزی اشرافیہ نے زبردست مذاق اڑایا۔ لیکن بہت سے بھارتیوں کیلئے جو خود کو مغرب زدہ اشرافیہ کیطرف سے دھتکارا ہوا اور محروم سمجھتے ہیں، مودی کو مخصوص انداز میں بلا تردد انگریزی بولنے والا ایسا ہندو لیڈر تصور کرتے ہیں جس کیلئے ناول نگار آتش تاثیر نے دو ہزار چودہ میں یہ دعوی کیا تھا کہ " بھارت ایک نادر نمونے کے طور پر،خود اپنے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے ، اپنے میں سے ایک کو سامنے لایا ہے، ایسا اپنا جس پر مغرب کی کوئی چھاپ نہیں ہے"۔
مودی کی یہ بھی خوشق قسمتی تھی کہ اس کے مقابل میں راہول گاندھی جیسا لیڈر تھا، جو بھارت کی ڈوبتی موروثی سیاست اور دیوالیہ شدہ نظریاتی مرکزیت کے نشان ہیں۔ لیکن نیو لبرلز بھارتیوں اور مغربی تجزیہ نگاروں کی توقعات کے برعکس، مودی کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ ان پیچھے رہ جانے والوں کے غیظ و غضب کے جذبات اور توانائیوں کا رخ زبردست معاشی ترقی کیطرف موڑ دے۔ بلکہ اس نے تو وہ راستہ کھول دیا ہے جس کا ذکر فریڈرک نطشے نے "ناراض انسان" کے بارے میں کیا تھا: "ایک اتھاہ گہرائیوں سے اٹھنے والا ، کانپتا، سارے وجود پر محیط، مکمل انتقام ، ایک ایسا طوفان جو نہ تھمے گا اور نہ جس کی پیاس بجھے گی "۔
مودی کا متعین وظیفہ وہ ہی ہے جو دیگر دائیں بازو کے دیوتاؤں کا ہے: ایک خوفزدہ اور ناراض آبادی کے جذبات کو یہ کہہ کر بھڑکانا کہ ان کی مشکلیں اقلیتوں، مہاجرین، بائیں بازو ، آزاد خیال اور دوسروں کیوجہ سے ہیں جبکہ اس دوران شکاری سرمایہ داروں کیلئے راستے ہموار کرنا ہے۔ وہ بھارتیوں کو روزگار دینے میں یقینا ً ناکام رہا ہوگا۔ لیکن اس نے لوگوں کیلئے یہ ممکن بنادیا ہے کہ اپنے اسی منتقمانہ انداز میں جو وہ انگریزی بولنے والوں کیلئے استعمال کرتا ہے، کہ وہ شور و ہنگامہ برپا کرکے ان مراعات یافتہ لوگوں کو خاموش کرادیں۔اس نے عدم انصاف سے آزادی دلا کر لوگوں کے تاریک، سفلی جذبات کو آزاد کردیا ہے؛ اس نے اپنے حامیوں کو لائسنس دے دیا ہے کہ وہ کھلے عام اس صف سے اپنی نفرت کا اظہار کریں جس میں بے ایمان پاکستانی، غدار مسلمان اور ان کی خوشنودی کے خواہشمند مقامی بھارتی شامل ہیں۔
جوں جوں مودی نے دیر سے سلگتے ہوئے جذبات کا آتش فشاں کھولا ہے، اس کے ساتھ ہی بھارت نے نہ صرف اپنے جمہوری اداروں اور معقول گفتگو پر بہیمانہ حملوں کا مشاہدہ کیا ہے بلکہ عام انسانی شائستگی بھی ناپید ہوگئی ہے۔مودی نے جو بھارت بنادیا ہے اس کی عکاسی کوئی اور چیز نہیں کرسکتی سوائے ان مظاہروں کے جو گذشتہ سال دیکھنے میں آئے تھے جو خواتین نے کیے تھے، اور جن کے جواب میں جو جواز سیاستدانوں، پولیس اہلکاروں اور وکلاء نے دیا تھا ان آٹھ ہندو ملزمان کے حق میں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک آٹھ سالہ مسلمان بچی کی کشمیر میں کئی دن آبروریزی کی اور پھر اسے بیدردی سے قتل کردیا۔
ووٹرز کو انتقام کے بہکاوے میں ڈال کر اور ایسی عظمت کے خواب دکھا کر جہاں طاقت اور غلبہ حاصل ہوگا، مودی نے نہایت چالاکی سے خود کو اس حالت سے بچالیا ہے جہاں اس کی "خام دانشمندی" کی کارکردگی کا عوامی جائزہ لیا جاتا، جو کسی اور سیاستدان کا کیریر تباہ کرسکتا تھا۔ دو ہزار چودہ میں ہندو بالادستی کے پیروکاروں نے نفرت کی جس سیاست کا آغاز کیا ہے اس نے دنیا کی کئی جمہوریتوں کو زنگ آلود کیا ہے۔ اس ہفتے اس نے اس فاتحانہ انداز میں تاریخ کی اور بعد از سچائی (Post- truth) دور کی سب سے بڑی انتخابی فصل کو کاٹا ہے، جو ہمارے لیے مستقبل سے مزید خوفزدہ ہونے کی وجہ بن گئی ہے"۔ (ختم شد)