ایوب خان اپنی کتاب’’جس رزق سے آتی ہو پروازمیں کوتاہی‘‘ میں لکھتے ہیں ’’میں نے اپنے ایک جج دوست سے پوچھا۔ آپ کا دن کس طرح گزرتا ہے؟ ‘‘ بولے۔ میں عدالت میں صبح سے لیکر شام تک جھوٹ سنتا ہوں۔ فیصلہ سناتے وقت کوشش ہوتی ہے کہ بھوسے میں سے گندم کے دانے الگ کر لئے جائیں۔ مشرف نے ڈگری کی شرط عائد کر دی۔ نتیجتاً لوگوںکو جعلی ڈگریاںبنوانی پڑیں۔ یہ ایک طرح کی (DOUBLE GEOPARDY) تھی۔ جعل سازی کرکے فوجداری قانون کی خلاف ورزی کی اور پھر 62/63 کا اطلاق بھی ہو گیا۔ غالب نے کسی ایسی ہی صورت حال کومدنظر رکھتے ہوئے کہا تھا۔ دام پر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
اٹھارویں ترمیم کوایسے ہی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بندربانٹ تھی میاں نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیراعظم بننا تھا۔ مشرف دو دفعہ کی شرط عائد کر گیا تھا۔ زرداری کو سندھ میں قدم جمانے تھے۔ گو بھٹو مرحوم ایسا سکہ بند بندوبست کر گیا تھاکہ ایک طویل عرصہ تک اس خاندان کو سیاسی طور پر بے دخل کرنا مشکل ہو گا۔ تمام پیران سندھ ، وڈیروں اور بڑے لوگوںنے پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ سندھی بنیادی طور پر سید پرست اور پیر پرست ہے۔ وڈیروں کو ہی اپنا ملجا و ماوا مانتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی نے اس کو کم از کم سندھیوں کی نظر میں شہادت کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔ وہ ’’شہید بابا‘‘ کے خاندان سے منہ موڑنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ جس قسم کے مالیات کی سندھ حکومت کو ضرورت تھی وہ اس ترمیم کی صورت میں مہیا ہو گئی۔
18ویں ترمیم نے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں کی پیٹھ کھجلا دی اورمطلوبہ مقاصد پورے کر دئیے۔چونکہ مرکزی مالیہ کا 57 حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے اس لیے عمران خان کی حکومت کو بہت دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ اب ایک نئی افتاد آن پڑی ہے۔ کورونا نے ملکی معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔ مرے کو مارے شاہ مدار والی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ 5500 ارب روپے کا مالیاتی ہدف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ 1700 ارب کاشارٹ فال متوقع ہے۔ وہ لوگ جو خطِ غربت کے نیچے تھے اب تحت السرا میں دھنسنے والے ہیں۔ وہ جو کسی طور متمول تو تھے۔ وہ بھی صفِ غُربا میںشامل ہو رہے ہیں۔ کاروبار بند ہیں۔ برآمدات رُکی ہوئی ہیں۔ تیل کی کمی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ وجہ ؟ چونکہ طلب 1/3 ہو گئی ہے۔ اسی حساب سے حکومت کے ٹیکسز کم ہونگے۔ تیل پہلے ہی سعودی عرب سے اُدھار پر لیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی ترسیلات زر میں نمایاں کمی آ گئی ہے۔ وہ جو زرمبادلہ کا ذریعہ تھے۔ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ان کی وطن واپسی شروع ہو گئی ہے۔
؎ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے
جو قرضے ’’ری شیڈول ‘‘ ہوئے ہیںوہ 1½ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ گویا اللہ معاف کرے 'DOOMS DAY SCENERIO ' نظر آتا ہے۔
ان حالات میں 18 ویں ترمیم کے ساتھ کاروبار حکومت چلانا مشکل ہے لیکن اس کے لئے حکومت کے پاس دوتہائی تو کجا سادہ اکثریت بھی مشکل نظر آتی ہے۔ اس وقت (ق) لیگ کی ناراضی محل نظر ہے۔ کیا حکومت (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کو رام کر پائے گی؟ اس کے لیے کچھ لو ، کچھ دو۔ کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے حکومت ہنوز آمادہ نظرنہیں آتی۔ ایک بات اب صاف نظر آ رہی ہے۔ جیمز بانڈ کی طرح چُومکھی لڑنا مشکل ہو گا۔ (POLITICAL EXPEDIENCY) کے بغیر معاملات آگے بڑھتے نظر نہیں آتے…ان معروضی حالات میں ہمہ مقتدر قوتوں کارول بہت بڑھ گیا ہے۔ اُمید ہے کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ البتہ ایک بات توروزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں کوئی سیاست دان اقتدار میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ (ختم شد)