کرونا کے باعث مساجد تک بند کردی گئی تھیں۔مسجد نبوی اور خانہ کعبہ میں بھی عبادات محدود ہوئیں تو روح تک کانپ گئی ۔ا ب اللہ کا شکر ہے سعودی عرب میں مسجد نبوی سمیت تمام مساجد کھول دی گئی ہیں۔یہ خبر اہل ایمان و اہل اسلام کیلئے طمانیت کا سبب اور باد صبا کے جھونکے کی طرح ہے۔
کروناوائرس کے خوفناک رفتار سے پھیلائو نے دنیا بھر کو ہلا کے رکھ دیا۔ ڈاکٹروں کی سر توڑ کوششیں بھی اس مرض کوروکنے میں ناکام ہوگئیں ۔ ہر نیا دن کرونا جیسی بیماری میں مبتلا ہونیوالے افراد کی تعداد میں اضافے کی بُری خبر لے کرآتا ہے۔ مریضوں کاعلاج کرنیوالے خود مریض بن گئے اور پھر لقمہ اجل بن رہے ہیں۔پاکستان میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔مریضوں کی تعداد ایک لاکھ ہوگئی اور مرنیوالوں کی تعداد میں روزانہ ایک سو کے قریب اضافہ ہورہا ہے۔ ترقی یافتہ امریکہ ، یورپ، چین اور دیگر ممالک کیساتھ ساتھ عالم اسلام کے ممالک بھی اس موذی وبا کا شکار ہوئے ہیں۔ اس عالمی وبا کے بعد دنیا بھر میں قرنطینہ کی اہمیت اور سماجی رابطوں کو کم کرنے اور فاصلے بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی گئی، لیکن سماجی فاصلوں کو کم کرنے کے معاملات پر بہت سارے سوالات نے جنم لیا، بعض حلقوں اورعلمائے کرام کی طرف سے اس پر اعتراضات پر بھی کئے گئے کہ یہ تقویٰ اورتوکل کے خلاف ہیں ۔کہا گیا کہ ہمار ا ایمان مضبوط ہو تو ہمیں ہاتھ ملانے کی سنت ترک نہیں کرنی چاہئے، نماز باجماعت ادا کرنا وبا کے دنوں میں بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے بہت سے فاضل علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اس وقت پوری دنیا کو جس چیلنج ، آفت ، وباء اور ایک آزمائش کا سامنا ہے ایسی آزمائش کی چھوٹی یا بڑی مشکلیں زندگی میں آتی رہتی ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے اور ایک حد تک وہ بھی درست ہے کہ تکلیفیں جو زندگی میں آتی ہیں وہ کسی خطا یا گناہ یا کسی کوتاہی کی وجہ سے آتی ہیں۔ یہ بھی درست ہے لیکن اصل مسئلہ جو ہے وہ آزمائش کا ہے اور آزمائش کے حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ اللہ کی طرف پہلے سے بھی زیادہ رجوع کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور اللہ کی نا فرمانیوں سے بچا جائے جو نافرمانیاں ہو چکی ہیں ان پر استغفار کیا جائے اور اللہ کا ذکر کیا جائے اللہ سے دعائیں کی جائیں۔دعائوں کے ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہے۔کرونا کی سر دست کوئی میڈیسن موجود نہیں لہٰذا احتیاطی تدابیر پر ہی تکیہ کرنا ہوگا۔دینی رہنمائی کیلئے ہماری نظریں ہمیشہ مدینۃ النبی ؐ کی طرف اُٹھتی ہیں۔کرونا کی یلغار حجاز مقدس میں بھی ہوئی۔ایک عرصہ کیلئے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کو عبادات کیلئے بند کرنا پڑا۔کرونا کے اثرات حجِ اکبر پر بھی مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔مگر اب امید کی کرنیں نمودار ہورہی ہیں۔خانہ کعبہ عمرے و عبادات کیلئے کھولدیا گیا ہے۔حج کی ادائیگی کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔ہوسکتا ہے زائرین کی تعداد محدود رہے تاہم حج ضرور ہوگا۔ہمارے لئے سب سے زیادہ اطمینان کا پہلو مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کو نمازیوں کے لئے کھولنا ہے۔
احتیاطی تدابیر کے ساتھ ڈھائی ماہ بعد سعودی عرب میں مساجد میں پہلی نماز جمعہ مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ادا کی گئی۔ مسجد نبوی الشریف میں انتظامیہ کی جانب سے نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے کیے جانے والے انتظامات مثالی تھے۔ مسجد نبوی الشریف میں نمازیوں نے سماجی فاصلے کے اصولوں پر مکمل طورعمل کیا۔ مسجد نبوی کے بیرونی صحن بھی نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے۔نمازی شکرانے کے آنسو بہاتے جوق در جوق چلے آئے۔مسجد نبوی میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے نماز جمعہ ادا کی۔وزارت اسلامی امور کی جانب سے چھوٹی مساجد جہاں عام دنوں میں نماز جمعہ ادا نہیں کی جاتی،ان میں بھی عارضی طور پر جمعہ نماز ادا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ اس ضمن میں مملکت کے تمام شہروں میں 4 ہزار کے قریب مساجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے انتظامات تھے۔ مساجد کے وضوخانے بدستور بند رہے جبکہ ہر شخص ہدایات پرعمل کرتے ہوئے اپنی جائے نماز ہمراہ لایا جبکہ ماسک کی پابندی پر بھی عمل کیاگیا۔ خطبے جس میں پوری امہ کیلئے گائیڈ لائنز بھی ہیں ، کہا گیا کہ معمر افراد کو چاہئے کہ وہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مساجد نہ آئیں بلکہ گھروں میں نماز ادا کریں کیونکہ معمر اور بیمار افراد اس وبائی مرض کا جلدی شکارہوتے ہیں۔سعودی عرب نے کرونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔جس کے باعث وہاں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔پاکستان میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ عجلت میں کررہی ہے۔حکومت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ لوگ کرونا کے تدارک کیلئے کئے جانیوالے اقدامات کے باعث بھوک سے مرجائیں گے۔یہ تو ایک تصور اور مفروضہ ہے جبکہ حقیت کرونا کی تباہ کاریاں اور اموات ہیں۔آپ پہلے حقیقت کا ادراک اور احساس کریں اس کے بعد مفروضوں پر بات کریں۔پاکستان میں غربت جس بھی درجے کی ہو لوگوں میں انسانیت ہے،انسانوں کا درد ہے۔کسی کو بھوکوں مرتا نہیں دیکھ سکتے۔باقی اللہ کے کرم سے اناج ہمیشہ ہماری اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ پیدا ہوتا رہا ہے اور بدستور ہورہا ہے۔لہٰذا انسانوں کے بھوکوں مرنے کا کوئی خدشہ نہیں،انہیں کرونا سے مرنے سے بچایا جائے خواہ کرفیو جیسا لاک ڈاؤن کرنا پڑے۔