بے نظیر بھٹو شہید پر سنتھیا کے بے ہودہ الزامات

سنتھیارچی کے پیپلزپارٹی کے قائدین پر لگائے گئے الزامات کی نو سال بعد کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سابق وزیرداخلہ رحمن ملک اور سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین کی شہرت ان الزامات سے داغدار ہوئی ہے۔ یہ لوگ یقینا امریکی خاتون کو عدالتی کٹہرے میں لائیں گے۔ وہاں خاتون اپنے الزامات ثابت نہ کر سکی اور یقینا نہیں کر سکے گی۔ اس کے الزامات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو جاتے ہیں توبھی جن پر الزامات لگائے گئے ان کی عزتِ نفس مجروح ہونے کا مداوا نہیں ہو سکے گا۔ یہ لوگ اپنی صفائی پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے مگر بے نظیر بھٹو کے خلاف جو بے ہودگی کی گئی وہ اس کا جواب دینے کے لیے دنیا میں ہی موجود نہیں ہیں۔ محترمہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ آصف علی زرداری سے ’’تعلقات‘‘ رکھنے والی لڑکیوں کا ریپ کروایا کرتی تھیں۔میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خصوصی ایلچی کے طور پر ان کی زندگی کے آخری آٹھ سال ان کے ساتھ رہا۔ محترمہ شہید کی پاکستان آمد سے پہلے میں محترمہ شہید کے ساتھ امریکی کانگریس ، سینیٹ ،امریکی دفتر خارجہ اور پینٹا گون میں ہونے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہر ملاقات کا عینی شاہد ہوں جب کہ پیپلزپارٹی امریکہ کے مرکزی رہنما ملک خالد اعوان نے ان دنوں امریکی حکام کے ساتھ کافی میٹنگز طے کررکھی تھیں۔ حتیٰ کہ سابق صدر مشرف کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی فائنل ملاقات اور دیگر ملاقاتیں میرے سامنے شیڈول پاتی رہیں۔یہ وہ ایام تھے جن دنوں آصف علی زرداری جیل میں تھے اور ضمانت پر رہائی کے بعد پہلے دبئی اور پھر نیویارک شفٹ ہو گئے۔۔ شہید محترمہ اور آصف علی زرداری کے درمیان ناچاقی اور کشیدگی کی ملنے والی اطلاعات کا بھی میں چشم دید گواہ رہا ہوں۔ 2007کی انتخابی مہم میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو لاڑکانہ میں جلسہ کرکے صادق آباد سے پنجاب میں داخل ہوئیں تو وہاں کے پیپلزپارٹی کے مقامی ٹکٹ ہولڈر اور میرے عزیز جاوید وڑائچ (ایم این اے )اور عبدالقادر شاہین کے ساتھ ان کی پنجاب کی انتخابی مہم میں شرکت کے لیے ان کے ساتھ تھا۔شہید محترمہ بینظیربھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی نے مجھے خصوصی پاور آف اٹارنی دے رکھی تھی ۔ میں سوئس کیسز کانگران مقرر ہوا تھا۔ 27دسمبر کو جب بے نظیر بھٹو کو خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا اس وقت لاہور ایئرپورٹ سے سوئٹزرلینڈ کیسز کے حوالے سے جا رہا تھا۔ 25دسمبر کو شہید محترمہ نے مجھے کیسز پر بریفنگ دی اور سوئٹزرلینڈ جانے کو کہا تھا۔ میں سوئٹزرلینڈ نہ جاتا تو 27دسمبر کو شہید محترمہ کے ساتھ خاک اور خون میں نہا چکا ہوتا۔جو الزامات سنتھیا نے شہید محترمہ پر لگائے وہ انتہائی لغو ،بے ہودہ اور بے سروپا ہیں۔ وہ ایسے مزاج کی خاتون ہی نہیں تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید پر لگائے جانے والے ایسے الزامات کو دیکھ کر یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی، رحمن ملک اور مخدوم شہاب الدین کے خلاف الزامات بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں۔قارئین!سنتھیا کی حالیہ لغویات کے بعد میں نے مختلف طبقہ ہائے فکر کے اشخاص کے ساتھ اس مسئلہ پر گفتگو و شنید کی ہے اور میرا بحیثیت تجزیہ نگار یہ فرض بنتا ہے کہ میں چاروں اطراف کے تجزیات کو سامنے رکھ کر حقائق نوائے وقت کے قارئین کے سامنے پیش کروں۔مثلاً مشہور تجزیہ نگار جاوید چودھری کا موقف یہ ہے کہ ’’ایک گورے نے مشرف پر الزام لگایا کہ مشرف نے فلاں بات کہی، مشرف نے انکار کیا، ہم نے گورے کو گالیاں دیں، اگلے روز گورے نے مشرف کے منہ سے نکلے الفاظ کی آڈیو اپنی اخبار کی ویب سائٹ پر لگا دی اور ہم شرمندہ۔گورے نے الزام لگایا کہ پاکستانی کرکٹروں نے سپاٹ فکسنگ کی، ہم نے کہا کہ گورا بکواس کر رہا ہے، ہمارے ’ہیروز‘نے اپنا جرم عدالت میں بھی تسلیم کیا اور میڈیا پر بھی، ہم شرمندہ ۔۔ایک دفعہ پاکستانی کرکٹ بورڈ کے سربراہ نے گوروں پر میچ فکسنگ کا جوابی الزام لگایا، ہم خوش ہو گئے کہ چلو ساری دنیا ہی بے ایمان ہے، ہمارے کرکٹ کے سربراہ نے جھوٹا الزام لگانے پر معافی مانگ لی اور ہم شرمندہ ۔۔جو لوگ یورپ، امریکا میں رہتے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ گورا جھوٹ نہیں بولتا اور اگر بولتا بھی ہے تو پکڑا نہیں جاتا۔۔قارئین اس تحریر کومحفوظ کرلیں، مسزسنتھیا رچی کی کچھ باتیں ضرور سچ ثابت ہوں گی ؟‘‘
اور اس سے ملتے جلتے خیالات تقریباً سبھی تجزیہ نگاروں اور سیاسی موسم کا حال بتانے والوں کے ہیں۔ میں نے سینئر سفارت کاروں، بیوروکریٹس،سیاستدانوں اور حتی کہ عسکری ماہرین کی بھی رائے لے کر یہ تجزیہ قارئین نوائے وقت کے سامنے رکھ دیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے پیار کرنے والے جیالے اور پاکستان کے غیور عوام جن کے لیے ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے شہادتوں کی عظیم داستانیں رقم کی ہیں وہ کبھی بھی محترمہ کی شہادت کے بعد ان کی کردار کشی پر خاموش نہیں رہ سکتے۔تمام حالات آپ کے سامنے ہیں۔ حقیقت کیا ہے اور کون سے لوگ سنتھیا سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا وہ کون سی طاقتیں ہیں جو کچھ ناکردہ گناہوں کی سزا بلاول بھٹو کو دینے پر مصر ہیں؟ سنتھیا نے ایسے الزامات کیوں لگائے۔ اس کے پس پردہ کیا مقاصد اور ایجنڈا ہے ،اسے پاکستان کے تحقیقاتی ادارے سامنے لائیں۔

ای پیپر دی نیشن