قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور ۔ کچھ یادیں

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ گزرے ہوے کچھ دن ایسے ہوتے ہیں کہ تنہائی جنہیں دہراتی ہے۔اور وہ بھی نو عمری کے دن اور ، انیس سو اکہتر کے سال میں جب جنوبی پنجاب میں یہ تیسرا میڈیکل کالج قائم ہواتھاکہ اس سے پہلے پنجاب بھر میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے صرف دو کالج تھے ۔ایک لاہور میں کنگ ایڈورڈ جو اٹھارہ سو ساٹھ، میں انگریزوں کے طفیل ہمیں وراثت میں مل گیا تھا اور دوسرا قیام پاکستان کے فورا بعد انیس سو اکیاون، کو نشتر میڈیکل کالج ملتان اور لڑکیوں کے لیے،صرف ایک فاطمہ میڈیکل کا لج، وہ بھی جو تقسیم سے پہلے ہندو، سر گنگا رام ہسپتال کے ساتھ منسلک تھا ا ور داخلہ صرف اورصرف میرٹ پر ہوتاتھا۔ان دنوں ،کیوںکہ پرائیویٹ میڈیکل کالج نہیں ہوتے تھے،اور محدود ،گورنمنٹ کی منظور شدہ سیٹیں اور ان پر سٹرکٹ میرٹ پر داخلہ ہوتا تھا اورایک نمبر کی کمی سے اگر کوئی رہ جاتا ،تو چاہے صد یا وزیر اعظم کا بھی کوئی بیٹا یا بیٹی ہو بھی ہو ،اس کو بھی داخلہ نہیں ملتا تھا ۔آج کل تو معذرت کے ساتھ اگر کسی کے پاس پیسہ یا ڈونیشن ہو ، تو وہ میڈیکل کے ادارے میں داخل ہوسکتا ہے۔کیوںکہ اب پرائیویٹ اور مہنگے فیسوں والے میڈیکل کالج امیر زادوں کے لیے وجود میں آ چکے ہیں اسی کو ترقی کہتے ہیںیا شائد موجودہ دور کی ترقی معکوس۔ان دنوں میں یہ سابقہ ریاست اور موجودہ شہربہاولپور اپنے چڑیا گھر وکٹوریہ ہسپتال،سٹیڈیم، لال سوہانورا، نور محل پیلس اور ایک بڑے بازار جسے عرف عام میں فرید گیٹ کہتے ہیں ، سائیکل رکشا ، بظاہرپر سکون ماحول لیکن شدید گرمی کی وجہ سے اور ایک سابق ریاست کے حوالے سے جانا جاتا تھا جب اس میں ایک میڈیکل کالج کے اضافے نے اس شہر کی رونق اور اہمیت میں دوچند اضافہ کیا۔اور اس علاقے کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات بھی زیادہ میسر آنے لگیں ۔ اس وقت یہ کالج ایک ویرانے میں لگتا تھا اور ابتدا میں صرف دو ہوسٹل اقبال اور فیصل ہال، انہی ویران سی جگہ پر بنے تھے۔اس سے پہلے ہم پیرا میڈیکل سکول کے ہوسٹل میں رہتے تھے جہاں آج تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے۔اس وقت کے ڈاکٹروں کے کردار اور قابلیت کی ایک دنیا معترف ہوتی تھی اور آج کل کی طرح پیسے کی دوڑ نہیں لگی ہوتی تھی بلکہ اس وقت تو صبح سے شام تک ،ہسپتالوں میں غریب ،امیر علاج کروانے آتے تھے اور پرائیویٹ علاج کا تصور نہ ہونے کے برابر تھا۔ایک دفعہ ایک دوا ساز کمپنی والے نے جب ٹی بی کے علاج کی نئی ایجاد شدہ دوا کی زیادہ قیمت بتائی ، تو ہمارے پروفیسرڈاکٹر ہمدانی نے یہ کہہ کر دوا لکھنے سے انکار کردیا کہ یہ قیمتی دوا ہے اور اکثر غریب لوگ ہی ٹی بی کے شکار ہوتے ہیں، اس لیے اس دوا کی قیمت کم کی جائے تا کہ غریب لوگ بھی یہ دوا خرید سکیں جبکہ شنیدہے کہ آج کل کے مسیحا کمپنیوں کے کہنے پر دوائیں لکھنے کا فریضہ ہ بلا کم وکاست بااحسن طریقے سے انجام دے رہے ہیںپتہ نہیں ہیلتھ کمیشن کہاں سویا ہے اور اسکے مراعات یافتہ ملازمین کیا فائلیں بھر رہے ہیں۔ اس وقت مریض کی قوت خرید کا خاص ،خیال رکھا جاتاتھا اورزیادہ تر مریضوں کو گورنمنٹ ہسپتالوں میں آسانی سے داخلہ مل جایا کرتا تھا۔کسی کو سفارشی چٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی ۔ امیروغریب ،غرض تمام قسم کے لوگ آوٹ ڈور کے باہر انتظار میں کھڑے ہوتے تھے اور چیک کروایا کرتے تھے۔ اسی طرح مریضوں کوفری ادویات بھی مل جایا کرتی تھیں ۔ہمارے ڈاکٹر اساتذہ ، اپنے پیشے کو مقدس اور بے لوث سمجھتے تھے اور دلی اور عملی طورپر مریضوں کے ساتھ خلوص اور اپنائیت سے پیش آتے تھے مجھے یاد ہے کہ اس وقت ،ہمارے ایک استاد پروفیسرڈاکٹر عیص محمد کوئی پرائیویٹ پریکٹس نہیں کیا کرتے تھے۔ ہر شام وکٹوریہ ہسپتال میں عام داخل غریب مریضوں کو دیکھتے تھے شائد ان کو بڑی کار یا کوٹھی کی ضرورت نہیں تھی جس طرح آج بھاگم بھاگ لگی ہوئی ہے جیسے دولت کمانے کاٹی ٹونٹی میچ ہو ۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...