اسلام آباد‘ لاہور (نیوزرپورٹر‘ خصوصی نامہ نگار) ایوان بالا نے بغاوت سے متعلق پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124-اے ختم کرنے کا بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سینئر سیاستدان میاں رضا ربانی نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124-اے ختم کرنے کا بل پیش ایوان میں پیش کیا جو بغاوت سے متعلق ہے۔ رضا ربانی نے ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعزیرات پاکستان سے بغاوت سے متعلق دفعہ کو حذف کیا جائے۔ ماضی اور ابھی بھی اس دفعہ کو جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یہ سیاسی اختلاف کو ختم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ اب قوم اور حکمران کا تعلق آقا اور غلام کا نہیں ہے۔ سیکشن 124 اے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف بغاوت سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکشن 124 اے ہمیں ورثے میں ملنے والے گورننس کے نو آبادیاتی ڈھانچے کا حصہ ہے، سیکشن کا مقصد مقامی افراد کو آقائوں کے خلاف بغاوت سے بعض رکھنا تھا۔ بغاوت سے متعلق قانون نے ظالمانہ قابض طاقت کے مقاصد کی تکمیل کی۔ بل کے اغراض و مقاصد کے مطابق آج بغاوت سے متعلق سیکشن کو سیاسی اختلافات کو کچلنے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بغاوت سے متعلق سیکشن کو عوام کو حق سوالات سے محروم کرکے اپنے تابع لانا ہے۔ بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے لیے عوام کے احترام کو ضابطوں کا پابند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کے لیے احترام، آزادی اظہار رائے اور حکومت کرنے کی صلاحیت سے پیدا ہوتا ہے۔رضا ربانی نے کہا کہ یہ ان دفعات میں سے ہے جو ہمیں ورثے میں ملیں۔ اس وقت کی برطانوی سامراج کی حکومت نے اسے متعارف کرایا تھا تاکہ وہ عوام پر اپنا کنٹرول رکھ سکیں۔ پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 124-اے کے مطابق جو کوئی بھی شخص زبانی یا تحریر کے ذریعے یا دکھائی دینے والے خاکے کے ذریعے یا بصورت دیگر وفاق یا صوبائی حکومت کو جو بذریعہ قانون قائم کی گئی ہو، نفرت یا حقارت میں لائے یا لانے کی کوشش کرے یا اس سے انحراف کرے یا اس سے انحراف اطاعت پر اکسائے یا اکسانے کی کوشش کرے تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی جس پر جرمانہ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا ایسی سزائے قید دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے جس پر جرمانے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے یا جرمانے کی سزا دی جائے گی۔رضا ربانی نے کہا کہ اس دفعہ کو ماضی میں بھی اور ابھی بھی جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اسی طرح یہ دفعہ لاہور میں جو طالبعلم نکلے تھے ان کے خلاف بھی اس کا استعمال کیا گیا۔انہوں نے درخواست کی کہ اس دفعہ کے خاتمے کا بل قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔تحریک انصاف کے رہنما علی خان نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس دفعہ کو ختم کرنے کے لیے جو وجوہات بتائی گئی ہیں وہ بالکل درست ہیں کہ آزادی اظہار رائے کے منافی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں مکمل آزادی اظہار رائے ہو تو اگر ہم قانون سے یہ دفعہ ہٹا دیں تو اس سے جس کا جو جی کرے گا وہ وہی کرے گا۔علی محمد خان نے کہا کہ یہ قانون یقینا ماضی میں سیاستدانوں کے خلاف استعمال ہوا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کے تقدس اور سالمیت کو یقینی بنانے والی شق کو ہی ہٹا دیں بلکہ اس کے بجائے اس عمل کو بہتر بنا دیں اور اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے لہذا وزارت اس کی حمایت نہیں کرے گی۔رضا ربانی نے کہا کہ میں فاضل وزیر کے اعتراضات سے اختلاف کروں گا۔ انہوں نے اپنے بل کے دفاع میں پاکستان پینل کوڈ 123، 125، 126، 127 کا حوالہ دیا کہ حکومتی اعترضات کے تحفظ کے لیے قوانین پہلے سے موجود ہیں۔بحث کے بعد اس بل کو متعارف کراتے ہوئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔رضا ربانی نے اس کے بعد آئین پاکستان کے سیکشن 89 میں ترمیم کا بل پیش کیا جو صدر کو آرڈیننس کے نفاذ کا حق دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قانون سازی کا حق پارلیمان کا ہے ۔محدود وقت اور محدود مقاصد کے لیے یہ حق آئین نے صدر کو دیا ہے کہ وہ آرڈیننس کو نافذ العمل کر سکے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستورکی شق 25اے کے بعد 25بی کے اضافہ کے حوالہ سے سینیٹ میں پیش کردہ ترمیمی بل کو سینیٹ نے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔بل میں صحت کو بنیادی حقوق میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں ایوان بالا نے بوڑھے والدین اور بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال، فلاح کا بل 2019ء فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2019ء اور ایوان بالا کمپنیز ایکٹ 2017میں مزید ترمیم کا بل کمپنیز (ترمیمی) بل 2019ء اوراسلام آباد پیور فوڈ اتھارٹی بل2019 کی منظوری دے دی ۔ سینٹ نے حکومتی مخالفت کے باوجود پہلے دونوں بل منظورکئے۔ سینیٹر رانا مقبول نے بزرگ شہریوں سینیٹر غوث محمد خان نیازی نے کمپنیز ایکٹ 2017میں ترمیم کے لئے کمپنیز (ترمیمی) بل 2019قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں پیش کیا۔ چیئرمین سینیٹ کی ہدایت پر سراج الحق نے وائرس سے جاں بحق ہونے والے وزرا، اراکین اسمبلی، سینیٹرز، ڈاکٹرز سمیت تمام افراد کی مغفرت کے لئے دعا کرائی۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے تمام اراکین کو ہدایت کی کہ ایس او پیز کی پابندی کریں۔ اجلاس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اس طرف توجہ دلائی اور کہا کہ ایوان میں سب ارکان ماسک پہنیں۔ شیری رحمان نے کہا کہ باہر سے آنے والے مسافروں کی ٹیسٹنگ نہیں ہورہی ہے۔ سندھ حکومت نے جدہ سے آنے والی پرواز میں مسافروں کی ٹیسٹنگ کی۔ جدہ سے آنے والی پرواز میں 123لوگ کرونا سے متاثر تھے۔ شیری رحمان نے کہا کہ حکومت سب اچھے کی رپورٹ دے رہی ہے۔ ملک کے اندر صورتحال بہت خراب ہورہی ہے۔ حکومت نے لوگوں کو کرونا کے معاملے پرکنفیوزکیا ہوا ہے۔
سینٹ: حکومتی مخالفت کے باوجود پینل کوڈ سے بغاوت کی شق ختم کرنے کا بل قائمہ کمیٹی کے سپرد
Jun 09, 2020