غریب کا معیار زندگی بلند کرنا مشن ہے: سپیکر پنجاب اسمبلی
فی الحال تو اسمبلی کی نئی عمارت کا افتتاح کرکے اس میں بیٹھنے والوں کا معیار بلند کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کاش اسی طرح کے ادارے بنا کر غریبوں کا معیار زندگی بھی بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسمبلی کی پہلی عمارت بھی کافی تھی ان نام نہاد عوامی نمائندوں کی نشست و برخاست کیلئے۔ وہاں کب کورم پورا ہوتا ہے کہ لوگوں کو بیٹھنے میں دشواری ہو۔ کورم تو کبھی اسمبلی میں پورا ہوتا ہی نہیں۔ تین چار سو کی جگہ صرف 30 یا 40 افراد آ کر وہاں محفل جماتے ہیں تاکہ کارروائی چل سکے۔ قانون سازی تو دور کی بات ہے۔ اکثر تو کورم کی نشاندہی پر اجلاس ہی برخاست ہوتا ہے کہ بندے پورے نہیں۔ ایسے بے حس لوگوں کیلئے اب نئی عالی شان عمارت بنائی گئی ہے جہاں ہر قسم کی سہولتیں انہیں میسر ہونگی۔ دنیا کا بہترین کھانا، چائے، بوتل، بسکٹ، کیک، ناشتہ وہاں ان کروڑ پتی نام نہاد عوامی غمخواروں کو نہایت ارزاں نرخوں پر ملتا ہے۔ کیا اسی ریٹ پر کسی غریب کو کسی سڑک کے کنارے، گندے ڈھابے میں یہ کھانا پینا مل سکتا ہے۔اتنی کم قیمت پر تو اشیاء غریبوں کو ملنی چاہئیں جو زیادہ پیسے ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ حیرت کی بات ہے کہ سب ان امراء کو دی جاتی ہیں۔ یہی ہمارے غم خوار ہر چیز سے سبسڈی ختم کرنے کے قانون بنا کر غریبوں کو مزید مہنگائی کے جہنم میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اسمبلیوں کی نئی خوبصورت عمارتیں بنائیں مگر اس کے ساتھ ان میں بیٹھ کر یہ عوامی نمائندے عوام کی زندگی بھی خوبصورت بنانے کے اقدامات کریں تو بات بنے۔
٭٭٭٭٭٭
بھارت کشمیر کو جیل بنا کر بھی مطمئن نہیں، آخر یہ لوگ کیا چاہتے ہیں: محبوبہ مفتی
قربان جایئے اس بھارت کی کٹھ پتلی کی معصومیت پر جنہیں عمر کے اس حصے میں پتہ نہیں چل رہا کہ بھارت والے آخر کشمیریوں سے کیا چاہتے ہیں۔ کشمیر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بھارت کشمیریوں سے غلامی پر راضی رہنا اور بھارت کی چاکری کرانا چاہتا ہے۔ وہ اس مقصدکیلئے کشمیر میں سونے چاندی کے پہاڑ بھی کھڑے کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرنا چاہتا ہے مگر کشمیری اس غلامی پر، چاکری پر تیار نہیں۔ وہ ہر قیمت پر کٹتے ہوئے، مرتے ہوئے بھی غلامی کا طوق اپنی گردن سے اتارنا چاہتے ہیں۔ یہ سب سے بڑی اور کھلی حقیقت اگر کوئی نہیں جانتا تو وہ بھارت کے وفادار ازلی غلام بھارت نواز کشمیری غدار سیاستدان نہیں جانتے۔ یا جانتے ہوئے بھی جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں بھارت تو روزِاول سے جبری قبضے کے بعد کشمیر کو جیل کی شکل دے چکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے ہزاروں محب وطن آزادی پسند کشمیری اس جیل خانے کے عقوبت خانوں میں مار دیئے گئے۔ معذور بنا دیئے گئے۔ غائب کر دیئے گئے۔ نامعلوم گمنام قبروں میں اتار دیئے گئے۔ اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیری اپنی جان مادر وطن کی آزادی پرقربان کر چکے ہیں مگر یہ غلام ابن غلام، غدار ابن غدار قسم کے بھارت نواز سیاستدان اس سے بے خبر ہیں۔ شیخ خاندان ہو یا مفتی خاندان یا بخشی خاندان ہو یا اور کوئی۔ انہوں نے جتنا نقصان کشمیر اور کشمیریوں کو پہنچایا، اتنا تو بھارتی حکمرانوں نے نہیں پہنچایا ہوگا۔ اب یہی لوگ کہتے ہیں بھارت کیا چاہتا ہے۔ کشمیر کو جیل کیوں بنایا ہوا ہے۔ واہ کیا بات ہے۔
٭٭٭٭٭٭
سعد رفیق کے گناہوں پر اعظم سواتی کیسے استعفیٰ دیں۔ فواد چودھری
بہت خوب بہت اچھے۔ فواد بھائی بہت اچھے۔ کیا خوبصورت بات کہی ہے آپ نے۔ سعد رفیق تو یہ بیان پڑھ کر
آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے میرے گناہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
کہہ رہے ہوں گے۔ اب ریلوے کے پے درپے تین سالہ حادثات کا جو بدترین ریکارڈ قائم ہو رہا ہے‘ اس کا ملبہ بھی سعد رفیق پر ڈالنا بہت حیرت کی بات ہے۔ لوگ اس قسم کی باتوں پر ہنستے ہیں اور الزام لگانے والوں کی ذہنی حالت پر طرح طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ بے شک سعد رفیق کا دور ریلوے کا سنہری دور نہیں تھا۔ حادثات اس دور میں بھی ہوئے مگر ریلوے میں جو اصلاحات کا دور آیا اور بہتری کا دور آیا اس کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو آئے 3 برس ہو گئے۔ 90 دن میں تبدیلی کے دعوئوں کو ماضی کی بات کہہ کر ماضی میں دفن کر دیں تو بھی یہ پوچھنا عوام کا حق ہے کہ محکمہ ریلوے کیا کرتا رہا وہ کیوں اپنی حالت بہتر نہیں بنا رہا۔ حکومت کو چھوڑیں ان کے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ مگر ہر محکمہ اپنے حصے کا کام تو کرے جو وہ نہیں کررہا۔ کیا اس میں بھی سابقہ حکمرانوں کا دوش ہے کہ وہ ایسا کرنے سے روک رہے ہیں۔ اپنے اپنے حصہ کی ذمہ داری اب قبول کرنا ہو گی۔ بہتری لانے کے لیے جت جانا ہو گا۔ اپنے گناہ دوسروں پر نہیں ڈالے جاتے۔ اب لوگ اتنے بدھو نہیں کہ مان لیں۔ ماضی میں بے شک کسی محکمے میں کوئی کام نہیں ہوا۔ مگر اب 3 سال سے کیا ہو رہا ہے کچھ تو نظر آنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭٭
لاہور پولیس کی قبضہ گرپووں کے خلاف کارروائی جاری،30 ارب روپے کی جائیدادیں اور زمینیں واگزار
لاہور پولیس قبضہ گروپوں کیخلاف اگر اس تندہی سے کارروائی جاری رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ قبضہ گروپوں اور لینڈ مافیاز پر زمین تنگ نہ ہو۔ شہری اس وقت سب سے زیادہ زمین اور جائیدادوں کے معاملے میں فراڈ کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ بااثر قبضہ گروپ کسی بھی شریف شہری کی زمین اور گھروں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ متاثرہ شہری تھانوں کے چکر لگا کر تھک جاتے ہیں مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ قانون ان بااثر قبضہ گروپوں کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔ ان کی اوپر تک پہنچ ہوتی ہے۔ اب سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے تو دیکھتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں۔ کب تک دبائو برداشت کرتے ہیں اور یہ کامیاب آپریشن جاری رہتا ہے ، کہنا تو یہی بنتا ہے کہ وہ ڈٹ جائیں۔ موج بڑھے یا آندھی آئے۔ قبضہ گروپوں سے متاثر لوگوں کی آس نہ ٹوٹنے پائے۔ ان کے پاس اختیار بھی ہے طاقت بھی۔ اسے کام میں لائیں اور دعائیں پائیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا
خو ن اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
اگرڈوگر جی بھی قبضہ گروپوں کی اس جادونگری کا خاتمہ کر دیں تو باقی صوبوں کے متاثرہ لوگ بھی اپنے صوبوں میں غلام محمود ڈوگر جیسا پولیس افسر طلب کریں۔ جیسے شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ کی طب کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭٭
سرراہے
Jun 09, 2021