ڈہرکی کے قریب پیش آنے والے ٹرین حادثے میں 66 مسافر جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق، کراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں ڈہرکی کے قریب الٹ کر دوسرے ٹریک پر جا گریں۔ مخالف سمت سے راولپنڈی سے کراچی جانے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ ٹرینوں کے درمیان ہونے والے تصادم کے بعد بوگیاں ریت میں دھنس گئیں۔ حادثہ رات تقریباً پونے چار بجے پیش آیا۔ دو گھنٹے تک کوئی مدد کو نہ پہنچا۔ لوگ زخمیوں کو رکشوں اور ٹریکٹرز میں ڈال کر اپنی مدد آپ کے تحت اسپتال لے کر گئے۔ فوری طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے کئی مسافر تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہوگئے۔ بوگیوں کو ہیوی مشینری سے کاٹ کرپھنسے ہوئے زخمیوں اور جاں بحق ہونے والے افراد کو نکالنے کا کام رات گئے تک جاری رہا۔حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں ریلوے کے چار ملازمین بھی شامل ہیں جن میں دو پولیس اہلکار ہیں۔ ریلیف اور ریسکیو آپریشن میں آرمی اور رینجرز کے دستوں نے بھی حصہ لیا۔
صدر مملکت، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ و دیگر نے اس ہولناک حادثے پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ وزیر ریلوے اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ ٹرین حادثے کی خود ہنگامی بنیادوں پر تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے اور حادثے کے ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ وزیر ریلوے نے 24 گھنٹے میں حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ طلب کر لی۔ ریلوے حکام نے حادثے کی تحقیقات کیلئے 21 گریڈ کے افسر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ ریلوے نے حادثے میں جاں بحق افراد کے ورثا کیلئے 15 لاکھ فی کس امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ زخمیوں کو ان کے زخموں کی نوعیت کے مطابق کم سے کم 50 ہزار اور زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹوئٹر پر لکھا کہ ٹرین حادثے کے زخمیوں کی طبی امداد کو یقینی بنایا جائے، ریلوے سیفٹی کی خرابیوں کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ حادثے کا شکار ملت ایکسپریس اور سرسید ایکسپریس کے بلیک باکس حاصل کر لیے گئے ہیں۔
ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس) ریلوے سکھر طارق لطیف کا سکھر سے چنی گوٹھ تک 456کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک کی حالت انتہائی خراب ہونے بارے صرف ایک ہفتہ قبل ریلوے کے اعلیٰ حکام کو مراسلہ لکھنے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ ڈی ایس ریلوے نے اعلیٰ حکام کو لکھے گئے مراسلے میں مذکورہ ریلوے ٹریک کے تیرہ مقامات کو انتہائی خطرناک قرار دیا تھا اور گزشتہ روز ہونے والا ٹرین حادثہ بھی اسی مقام پر ہوا ہے جس کی نشاندہی کی گئی تھی۔ چیئرمین ریلوے حبیب الرحمن گیلانی نے کہا ہے کہ وزیر ریلوے کی زیرصدارت اجلاس میں ٹریک کی فوری مرمت کا فیصلہ ہوا تھا، ہم نے اس پر ہنگامی بنیادوں پر ایک مہینہ پہلے کام شروع کیا تھا کیونکہ جو سکھر ڈویژن کا یہ پیچ ہے یہاں پر حادثات بار بار ہو رہے ہیں، ایم ایل ون سے پہلے بڑی سرمایہ کاری کرنا ممکن نہیں،اگر آج کروڑوں اربوں خرچ کر دیں گے تو ایم ایل ون کے وقت دوبارہ نئی پٹیاں ڈالنی پڑیں گی،ایکنک کی منظوری کے باوجود تکنیکی وجوہات کی بنا پر کام شروع نہیں ہوسکا۔
ٹریک کی حالت کے بارے میں ریلوے حکام اور افسران کی باتیں اپنی جگہ لیکن حادثے میں زخمی ہونے والے ایک مسافر شہباز احمد نے صحافیوں کو بتایا کہ ملت ایکسپریس کی دس نمبر بوگی کا کلمپ ٹرین کی کراچی روانگی کے وقت ہی خراب تھا اور کراچی ریلوے سٹیشن پر مسافروں نے روانگی کے وقت ریلوے حکام کو اس بارے آگاہ بھی کیا لیکن انہوں نے مسافروں کی بات نہیں سنی اور بدقسمتی سے اسی بوگی کا جائے کلمپ کھلنے سے یہ حادثہ پیش آیا۔ حادثے کی تحقیقات میں اس اہم نکتے کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ مسافروں کی نشاندہی کے باوجود ریلوے کے متعلقہ حکام کی طرف سے کلمپ کی مرمت پر فوری توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ اگر مسافروں کی شکایت پر عمل کرتے ہوئے بروقت کلمپ کی مرمت کر لی جاتی تو اس حادثے کو ٹالا جاسکتا تھا۔
اس ہولناک ٹرین حادثے کے بعد ایک طرف لوگ غم و غصے کا شکار ہیں تو دوسری جانب حکومت اور حزب مخالف سے تعلق رکھنے والوں جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حادثے کے بعد وزیر ریلوے کے استعفیٰ کے حوالے سے ہونے والی باتوں کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ سعد رفیق کے کیے گئے گناہوں پر وزیرریلوے اعظم سواتی کیوں استعفیٰ دیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کسی بھی محکمے میں کام نہیں ہوا، ہم ہر کام زیرو سے شروع کررہے ہیں۔ہم نے تو ایم ایل ون پر کام شروع کیا ہے۔ ادھر، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے ریلوے کو تباہ کر دیا۔ ٹریک کا کام نہ کرنے کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا۔ میرے اور ان کے دور کے خسارے کا موازنہ کر لیں۔ انہوں نے ریلوے کے ترقیاتی فنڈز پر 65 فیصدکٹ لگایا ہے، دیکھ بھال کیلئے فنڈز نہیں ہیں۔
ایک روح فرسا حادثے کے بعد سیاسی اکابرین کے درمیان ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی روش غیر سنجیدہ رویوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسے حادثات الزام تراشی کی بجائے ریلوے کے نظام میں بہتری لانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریلوے حکام ٹریکس، انجنوں اور بوگیوں کی حالت سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن اس سلسلے میں مطلوبہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔ ان اقدامات کے نہ کیے جانے کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ سی پیک کے تحت ریلوے کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی منظور ہوچکا ہے۔ 2017ء سے حکومت اسی منصوبے کی وجہ سے ریلوے پر معمول کی مرمت کے علاوہ پیسہ خرچ کرنے سے گریز کررہی ہے جس کی وجہ سے حادثات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسے حادثات میں قیمتوں جانوں کا ضیاع ہونے کے علاوہ کروڑوں روپے کا مالی نقصان بھی ہورہا ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ مزید انتظار کرنے کی بجائے ریل گاڑیوں اور ٹریکس کی حالت بہتر بنائے تاکہ حادثات پر قابو پایا جاسکے۔ پی ٹی آئی حکومت کے لیے یہ امر بہرصورت لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ اس کے اقتدار کے تین سال کے دوران ریلوے کو 373 چھوٹے بڑے حادثات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں آٹھ بڑے حادثات میں مسافروں اور ریلوے عملہ کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ اب کوشش کی جانی چاہیے کہ خستہ حال ریلوے ٹریکس درست کرکے ریلوے کو مزید حادثات سے بچایا جائے۔