سلام آباد(کامرس ڈیسک) وفاقی وزیر آئی ٹی و ٹیلی کام سید امین الحق نے اپنی وزارت کی تمام تقاریب اور اجلاس میں پاکستان کی قومی زبان اردو کو رائج کرنے کی ہدایت جاری کردی ہیں۔ اس سلسلے میں نوٹیفیکشن بھی جاری کیا گیا ہے جس میں وفاقی وزیر سید امین الحق نے ہدایت کی ہے کہ وزارت اور اس کے ماتحت اداروں میں تمام تقاریب کی مکمل کارروائی اردو میں کی جائے۔اپنے ایک بیان میں وفاقی وزیر آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکشن سید امین الحق کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے اپنی تقاریب میں اردو کا نفاذ آئین کی پاسداری کا بہترین نمونہ ہے، وزیراعظم کے حکم کی تائید پر پہل کرتے ہوئے ہم نے اپنی وزارت آئی ٹی میں بھی اردو کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خواہش ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی محکموں میں بھی جلد اردو نافذ ہو اسی طرح اگر عدالتی کارروائی، نوٹسز اور فیصلے بھی اردو میں جاری ہوں تو عوام کیلئے آسانیاں ہوں گی۔سید امین الحق کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 251 ملک کے تمام سرکاری اداروں میں اردو رائج کرنے کا حکم دیتا ہے، اردو ہماری قومی زبان اور آپسی رابطے کا مؤثر ذریعہ ہے اس کے استعمال میں شرمندگی نہیں ہونی چاہیئے۔ انھوں نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 25 فروری 1948 کو اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا، جسے قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر منظورکیا۔ پھر دستور پاکستان 1973 میں آرٹیکل 251 کے تحت اردو کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے پندرہ سالوں میں سارے نظام مملکت کو اردو میں منتقل کرنے کا حکم دیا گیا بعد ازاں سپریم کورٹ پاکستان نے ستمبر 2015 کو دستور کے آرٹیکل 251 کے مطابق قومی زبان اردو کو ریاست کے تمام شعبہ جات میں بطور دفتری، سرکاری اور تعلیمی زبان نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس میں سی ایس ایس سمیت تمام سرکاری ملازمتوں کے امتحان اور انٹرویو بھی اردو میں لینے کا حکم تھا۔ سپریم کورٹ نے اسے بنیادی انسانی حق تسلیم کرتے ہوئے فوری نفاذ کا حکم دیا لیکن افسوس فرمان قائد اعظم، آئین اور عدالت عظمیٰ کے حکم کی پاسداری نہیں کی گئی۔سید امین الحق نے 2015 کے عدالتی حکم کا مزید حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت چلانے کے لیے ایک غیر ملکی زبان کا استعمال غیر ضروری ہے ، کیونکہ یہ زبان عام لوگ نہیں جانتے۔ حتیٰ کہ کئی سرکاری اہلکار اور ملازم بھی جو انگریزی ذریعہ تعلیم سے پڑھے ہوئے ہیں، جس زبان کو سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ انگریزی نہیں ہوتی۔ یہ حضرات اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے فیصلوں اور تجاویز کو ایسی زبان کے قالب میں ڈھال کر پیش کریں جس سے وہ غیر مانوس ہوتے ہیں۔ اس میں بہت سا وقت ضائع ہو جاتا ہے ، کیوں کہ ساری توانائی اس بدیشی زبان کے اسرار و رموز سمجھنے میں ہی لگ جاتی ہے۔عدالت نے مزید کہا تھا کہ اس فیصلے کا مقصد انگریزی زبان کی اہمیت کم کرنا نہیں ہے جو بین الاقوامی تجارت اور دیگر سرگرمیوں میں استعمال میں لائی جاتی ہے۔ بلکہ قومی زبان کو فخریہ استعمال کرتے ہوئے دفتری امور کو عام فہم بنانے کیلئے ہے۔