افواہ پھیلا کر پٹرول خریداروں میں بے یقینی پیدا کی گئی

 سید شعیب شاہ رم
 ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے جس میں گزشتہ ہفتے 2 فیصد کا اضافہ ہوا، دوسری جانب  ملک میں اس شدید مہنگائی کے دوران عوام پیٹرولیم مصنوعات کی ریکارڈ قیمتوں سے پریشان ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی کہہ چکے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ بس یہ خبر سننا تھی کہ افواہ پھیلا دی گئی کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 25 روپے لیٹر اضافہ کر دیا اور پیٹرول پمپس پر عوام کا رش لگ گیا، لوگ لائن میں لگ کر پیٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے  رہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں بے یقینی کی صورتحال ہے۔ یہی صورتحال سرمایہ کار ، صنعتکار اور تاجروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مہنگائی کے کون سے ریکارڈ قائم ہوں گے عوام فکر مند ہیں۔ 
اب اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت نے بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے اور بجٹ کا اعلان جمعہ 10 جون کو کیا جائے گا جس میں اگلے سال کے لیے حجم 9 ہزار 500 ارب کے قریب ہو گا اور شرح نمو 5 فیصد رکھی جائے گی جو رواں سال 6 فیصد رہی۔ آئی ایم  ایف سے مشاورت کا سلسلہ اگلے دو دن جاری رہے گا، قابل ٹیکس آمدن کی حد طے کرنے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافے سے متعلق معاملات ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ قرض اور قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے 21 ارب ڈالر مختص کیے جا رہے ہیں، بیرونی قرض کی ادائیگی کے لیے 3500 ارب جبکہ مقامی قرض کی ادائیگی کے لئے 700 ارب روپے رکھے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اگلے مالی سال کے دوران مختلف ذرائع سے 4600 ارب قرض لے گی جبکہ سبسڈی کی مد میں 650 ارب روپے رکھے جانے کی تجویز ہے، پنشن کی ادائیگی کے لئے 530 ارب اور سول حکومت چلانے کے لئے 550 ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 800 ارب روپے ہو گا، جس میں 100 ارب روپے پرائیوٹ، پبلک پارٹنر شپ کا پروگرام ہے، اگلے سال کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 5 فیصد سے کم تجویز کیا جا رہا ہے جو 3800 ارب روپے کے برابر بنتا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ آئندہ مالی سال 41 ارب ڈالر کے فنڈز کی ضرورت ہو گی، 21 ارب ملکی و غیر ملکی قرض کی ادائیگی کیلئے، 12 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے، 8 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے درکار ہوں گے۔ ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 7 ہزار 255 ارب روپے تجویز کیا جا رہا ہے، نان ٹیکس ریونیو وصولی کا ہدف 2 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ رکھا جا رہا ہے، مجموعی طور پر آمدن 9 ہزار ارب روپے تجویز کی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاق کو کل آمدن سے 4900 ارب روپے اور صوبوں کو گرانٹس اور این ایف سی پول سے 4100 ارب روپے منتقل کئے جائیں گے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کیلئے ٹیکس وصولی کا ہدف 7 ہزار 255  ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر ) کے ذرائع کا کہناہے کہ پیٹرولیم لیوی کی مد میں 406 ارب روپے کی وصولیوں، براہ راست ٹیکسوں کی مد میں 2 ہزار 711  ارب روپے ، سیلز ٹیکس کی مد میں 3 ہزار 295 ارب روپے اور کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 843 ارب روپے وصولیوں کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 
 حکومت کے ذرائع سے یہ بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ 300 ارب اضافی ریونیو کی وصولی کیلئے بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکس سے متعلق حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو اگلے چند دنوں تک ٹیکس وصول کرنے والے شعبوں اور سیکٹرز کو حتمی کام سونپ دیا جائے گا۔ حکومت کی طرف سے تعطل کا شکارآئی ایم ایف پروگرام  کو بحال کرنے کے لیے نئے ٹیکس اقدامات میں 'لگژری انکم ٹیکس' کی تجویز بھی شامل ہے۔اگر ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس لگانے کی منظوری دی گئی تو مذکورہ بالا ٹیکس بھی اس کی ایک نقل ہو گی۔اس ٹیکس نیٹ میں میں پوش علاقوں میں واقع بڑے گھر بھی شامل ہیں جبکہ لگژری گاڑیوں کے مالکان کو بھی اس ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف براہ راست ٹیکس لگانے پر توجہ مرکوز کرنے لیے بڑے پیمانے پر ہدایات دی گئی ہیں جس میں خاص طور پر امیر طبقے کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا شامل ہے۔ حکومت کی طرف سے اس تجویز میں اس کو کرایہ کی آمدنی تک توسیع دینا اور اس پر مؤثر طریقے سے ٹیکس لگانا بھی شامل ہے۔ 
 حکومت ایسے شعبوں یا مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے گریز کر رہی ہے جس سے غریب طبقہ متاثر ہو۔ ایف بی آر کی ٹیکس تجاویز اس اصول پر قائم ہیں کہ بجٹ تیار کرنے والوں کو وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق امیر لوگوں کی تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن پر ٹیکس لگایا جائے۔بجٹ کے دستاویزات میں اگرچہ لگژری اشیا پر ٹیکس کا کوئی عنوان نہیں لیکن اس کا مقصد امیر طبقے پر ٹیکس عائد کرنا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری کیلئے کاروباری طبقے میں سہولیات کے لیے مراعات کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے بڑھتے ہوئے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے 19 مئی کو دو ماہ کی مدت کے لیے تیار کی جانے والی ممنوعہ اشیا کی فہرست میں  اضافے کیلئے دیگر  آئٹمز کی نشاندہی پر مزید کام شروع کر دیا گیا ہے۔تاہم وزارت خزانہ کی طرف سے اس بات کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی کہ درآمد کی جانے والے ممنوع لگژری اشیا کی فہرست میں مزید اضافہ کیا جائے گا یا نہیں، لیکن چیمبرز اور صنعتی نمائندگان پہلے ہی حکومت کے ایسے اقدام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ حکومت کی طرف سے نئے ٹیکس اقدامات صرف 300 ارب روپے کے لگ بھگ ہوں گے جو کہ مجموعی گھریلو پیداوار کا 0.4 فیصد ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...