میپکو کا لوڈ شیڈنگ کیلئے ادنیٓواعلیٓ میں امتیاز

Jun 09, 2022

میاں غفار احمد

میاں غفار احمد 
گزشتہ روز ملک بھر کے ٹی وی چینلزپر   اچانک پٹرول کی قیمت بڑھ جانے کے خبروں نے عوام میں بے چینی کی لہر پیدا کردی ۔  پٹرول کی قیمت 237 روپے فی لٹر کی خبر سنتے ہی پورے شہر میں جگہ جگہ پٹرول پمپس پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قطاریں لگ گئیں۔ جبکہ رات گئے حکومت کو وضاحت کرنا پڑی کہ پٹرول کی قیمتیں نہیں بڑھائی جا  رہیں۔ دو ہفتوں میں دوسری مرتبہ انتہائی خوشگوار موڈ میں پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی ’’خوشخبری‘‘ سنائی اگرچہ وزیراعظم نے کہا کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر پٹرول کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں مگر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے  کا اعلان کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کے خوشگوار تاثرات تھے۔ حالانکہ  خوشی کا کوئی جواز نہ تھاپھر موصوف نا جانے کس سوچ کے حامل ہیں۔ 
 عجیب مایوسی کے ماحول میں ہر کسی کے چہرے اترے ہوئے ہیں اور لوگوں کی برداشت اس اچانک ہونے والی مہنگائی نے ختم کر دی ہے۔شدت کی گرمی میں جب فصلیں پانی مانگ رہی ہیں تو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ٹیوب ویل چل ہی نہیں پا رہے۔ دیہاتی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹے سے بھی طویل کر دیا گیا ہے اور اگر بجلی آئے بھی تو ایک آدھ فیز  غائب اور وولٹیج بھی  کم ہوتا ہے۔ جس سے ٹیوب ویل چل ہی نہیں پاتے۔ جنوبی پنجاب سے لوڈشیڈنگ کے حوالے سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں اذیت کا باعث بنتی ہیں۔ لوڈشیڈنگ ان علاقوں میں اور بھی زیادہ ہے جہاں زیر زمین پانی کم یا کڑوا ہے پھر یہاں گرمی کی شدت بھی بہت زیادہ ہے۔ سب سے بری صورتحال سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے علاقے تونسہ کی ہے جہاں دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے بعد 30 سے 40 منٹ کے لئے بجلی آتی ہے اور پھر دو گھنٹے کے لئے غائب ہو جاتی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کے یو پی ایس بھی چارج نہیں ہو پاتے۔ راجن پور‘ روجھان‘ ڈیرہ غازی خان میں بھی 8 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے ادھر میپکو نے لوڈشیڈنگ کا عجیب و غریب شیڈول بنا رکھا ہے۔ جتنا چھوٹا علاقہ اتنی لوڈشیڈنگ زیادہ اور پوش علاقوں کے مکینوں کے لئے خصوصی رعائتی پیکج پر کم سے کم لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ 
ہر کوئی یہی سوال کرتا ہے کہ ایسا کون سا جادو چلا کہ 9 اپریل سے پہلے اور اس کے بعد ہر طرف سے ہی عذاب عوام پر مسلط کئے رکھا جائے۔ یہ وہی حکومتی اتحاد ہے جس نے ایسے عوام دشمن معاہدے کئے تھے کہ پاور پلانٹس بند بھی ہوں تو بھی ڈالروں میں ادائیگی جاری رہے گی۔ کہیں یہی کھیل دوبارہ تو نہیں کھیلا جا رہا کہ پھر سے اسی قسم کے نئے معاہدوں میں ملک کو جکڑ دیا جائے کہ اچانک ہی پٹرول ‘ بجلی اور گیس بم بن کر آئے روز پسی ہوئی عوام پر گرائے جا رہے ہیں۔ 
جنوبی پنجاب میں الیکشن کمشن کے فیصلے کے بعد خالی ہونے والی پنجاب اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ضمنی الیکشن کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا چکے ہیں تاہم ابھی تک سیاسی جماعتوں نے پارٹی ٹکٹس کا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی سے جانے والوں میں بعض دوبارہ ٹکٹ کے لئے پی ٹی آئی سے رابطہ کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ 
ملتان میں ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے شنید ہے کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے بیٹے زین قریشی کو الیکشن لڑانا چاہتے ہیں اور ان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے شیخ سلمان نعیم سے متوقع ہے۔ سالہا سال وزیر خارجہ رہنے والے مخدوم شاہ محمود قریشی نے دوران اقتدار رانا جبار‘ شیخ طاہر‘ خالد وڑائچ اور اس طرح کے درجنوں ’’ہیرے‘‘ ملتان کو عطیہ کئے تھے یہ ’’تحفے‘‘ الیکشن میں ان کے امیدوار کی کیسے معاونت کرتے ہیںیہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ موجودہ خراب اقتصادی صورتحال میں حکمران جماعت کے لئے عوام سے ووٹ لینابھی توآسان دکھائی نہیں دے رہا۔  معیشت کے لحاظ سے وزیراعظم شہباز شریف پر تو وہ جملہ صادق آتا ہے۔ 
ابا ابا کہا… بڑا سکھ پایا 
ابا ابا کہلوایا … سارا سکھ گنوایا 
پہلے تو بڑا بھائی نوٹوں کی بارش کر دیتا اور پنجاب سپیڈ کی آڑ میں دس روپے کا کام 25 روپے میں ہو جاتا  اب سر پر پڑی ہے تو ایک ہی ماہ میں سٹی گم ہے۔ اس صورت حال کے حوالے سے کسی نے کہا کہ اس مرتبہ یہ قوم کے لئے کوئی خاص ہی ایجنڈا لے کر آئے ہیں اور ڈنڈا بھی۔
معلوم نہیں کہاں گئی وہ تربیت یافتہ ٹریفک پولیس اور شہریوں کو سہولت دینے والی انتظامیہ‘ کرکٹ ٹیم کیا آئی ملتان کے شہریوں پر عذاب آ گیا ہے۔ شہر بھر کی اہم سڑکیں بند حتیٰ کہ کارڈیالوجی سنٹر کا راستہ بھی محدود۔ کوئی متبادل روٹ کی رہنمائی کرنے والا نہیں۔ نا جانے کون ’’قابل ترین‘‘ ٹریفک پولیس کا سربراہ ہے جس نے عوام کے لئے ایک تکلیف دہ پلان بنایا۔ 
حکومت نے دو ہفتوں میں دوسری مرتبہ انتہائی خوشگوار موڈ میں پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی ’’خوشخبری‘‘ سنائی اگرچہ وزیراعظم نے کہا کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر پٹرول کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں مگر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے  کا اعلان کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کے خوشگوار تاثرات تھے۔ حالانکہ  خوشی کا کوئی جواز نہ تھاپھر موصوف نا جانے کس سوچ کے حامل ہیں۔ 

مزیدخبریں