تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں زیادہ ہیں اس لئے حکومت کے لئے مہنگا تیل خریدنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی بڑھتی ہیں لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے عوام کو ممکنہ حد تک ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ عوام پر بوجھ کم سے کم کیا جا سکے۔ایک کروڑ 40 لاکھ گھرانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ ملیں گے۔ یہ گھرانے ساڑھے 8 کروڑ افراد سے زائد بنتے ہیں۔ ریلیف پیکیج کے 2 ہزار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی امداد کے علاوہ ہیں۔ آئندہ بجٹ میں بھی ریلیف پیکیج کو شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹے کا 10 کلو کا تھیلا 400 روپے میں ملے گا۔ اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ شناختی کارڈ کے ذریعے تصدیق کے بعد 2 ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں گے، جو ماہ جون سے فراہم کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ 37 فیصد غریب ترین لوگ اس پروگرام سے مستفید ہوں گے، جن کی آمدن 40 ہزار سے کم ہے، موبائل نمبر 786 پر شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کریں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شادی شدہ خواتین اسیکم کے تحت ایس ایم ایس کری،حکومتی ذرائع کے مطابق ایک کروڑ چالیس ہزار گھرانے ہیں، ایک پاکستانی اوسطا ً 5 فیصد ٹرانسپورٹ پر خرچ کرتا ہے، آئندہ مالی سال میں اس اسکیم کو بجٹ کا حصہ بنایا جائے گا ۔
یہ حقیقت ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عام چیزوں اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں دنیا بھر میں آسمان کو چھو رہی ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی گروسری اور اشیائے خورونوش بہت زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں۔ وہاں بھی ادویات‘ بجلی‘ ٹرانسپورٹ ودیگر اخراجات بڑھ چکے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان پہلی مرتبہ مہنگائی کا شکار نہیں ہوا۔ذو الفقار علی بھٹو دور میں مہنگائی کا ریلا آیا تھا۔ تب بھی مہنگائی کا شور مچا تھا۔جس کے بعد انہوں نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا۔ ان کے بعد پی این اے آئی اور اس نے کہا ہم سات سال پرانی قیمتیں واپس لائیں گے۔ مگر نہ وہ اقتدار میں آئے نہ قیمتیں واپس لا سکے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس وقت جو مہنگائی ہے وہ خام تیل کی عالمی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ہے ۔ کچھ اس کا اثر روس اور یوکرائن جنگ کی وجہ سے بھی ہے جس کی لپیٹ میں کئی ممالک کی معیشتیں آ رہی ہیں۔ اپوزیشن بلاوجہ اسے پرپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ جبکہ حکومت کو زمینی حقائق دیکھنے پڑتے ہیں۔ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے اور معیشت سے بوجھ کم کرنے کے لئے کئی اہم اقدامات کئے ہیں جن میں مہنگی و پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔اس ملک میں قدرتی وسائل کی فراوانی ہے جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ پاکستان میں ہر طرح کا بہترین کپڑا تیار ہوتا ہے۔ اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے اور صرف حکومت سے ہی قربانیوں کے مطالبات نہ رکھے۔ مہنگے امپورٹڈ پرفیومز کی امپورٹ اور خریداری بھی اشرافیہ کرتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہر طرح کا کپڑا‘ پرفیوم اور جوتے تیار ہوتے ہیں اور ایکسپورٹ بھی کئے جاتے ہیں۔ تو جہاں جہاں عوام مہنگائی اور درآمدی بل کو کم کرنے کے لئے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں انہیں ڈالنا چاہیے اور اس بات کو ذہن میں بٹھا لیناچاہیے کہ دنیا بھر میں مہنگائی ایک تیزی سے بڑھتے ہوئے عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کے سامنے بڑی بڑی طاقت ور اور جدید ترین اور امیر ترین حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔وہاں بھی تیل کی قیمتیں بڑھنے سے جو مہنگائی ہو رہی ہے اوراس کی وجہ سے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں وہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔وزیر اعظم شہبا شریف نے درست کہا کہ انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور اس وجہ سے کیا کہ دنیا میں پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں وگرنہ حکومت کو کیا پڑی تھی کہ بلاوجہ عوام پر بوجھ ڈالتی۔انہوں نے درست کہا کہ سابق حکومت نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے سبسڈی کا اعلان کر دیا تھا جس کا نقصان پاکستانی معیشت اور غریب عوام کو مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اور عوام کو معاشی بحران میں تحریک انصاف کی سابق حکومت نے پھنسایا۔اسی طرح خارجہ محاذ پر بھی مشکلات بڑھائی گئیں۔دوست ممالک کو ناراض کردیا گیا۔ موجودہ حکومت نے دو طرفہ تعلقات کی بحالی کا آغاز کردیا ہے۔
بھارت میں تیل اس لئے سستا ہے کہ وہ روس سے لے رہا ہے۔ کہا جاتا ہے عمران خان روس سے سودا کر کے آیا تھا ۔ حالانکہ ایسا کوئی معاہدہ حکومتی سطح پر سامنے نہیں آیا۔ اس لحاظ سے یہ بے کار بحث ہے اور ویسے بھی اگر روس سے ہم تیل لیتے بھی ہیں تو چونکہ امریکہ روس پر کئی پابندیاں لگا چکا ہے اور اگر ہم نے روس سے تیل خریدا تو یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں ہم امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا شکار نہ ہو جائیں۔ جہاں تک بھارت کی بات ہے تو وہ امریکہ کا چہیتا ہے اس کے روس کے ساتھ اسلحہ و دیگر معاملات میں بھی بڑے بڑے معاہدے ہیں۔ ہم عرب ممالک سے تیل لینے پر مجبور ہیں۔سعودی عرب دنیا کے پہلے تین سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ یہ ہمارا برادر دوست اسلامی ملک ہے۔ دونوں ممالک ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان پر یہ مشکل عارضی ہے۔ جیسے ہی تیل کی قیمتیں عالمی ممالک میں کم ہوں گی تو پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے آ جائیں گی جس کے بعد اشیائے خورونوش بالخصوص آٹا گھی و دیگر اشیا سستی ہو جائیں گی۔اب بھی حکومت کی جانب سے آٹے پر سبسڈی دی جا رہی ہے کیونکہ آٹا ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے۔ سابق حکومت مہنگائی پر سیاست کر رہی ہے اور ان کا مقصد اسے محض سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کرنا ہے جبکہ عوام بہت سیانے ہو چکے ہیں۔ انٹرنیٹ ہر شخص کی دسترس میں ہے۔
کوئی بھی شخص جا کر دیکھ سکتا ہے کہ دنیا میں مہنگائی کا انڈیکس کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح خام تیل کی قیمتیں دیکھنے کے لئے بھی زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ انٹرنیٹ پر سب کچھ میسر ہے۔ رہی بات یہ کہ موجودہ حکومت کتنی جلدی مہنگائی پر قابو پا لے گی تو اس کے لئے حکومت کو وقت ملنا چاہیے۔ یہ چند ہفتوں میں ممکن نہیں۔ ماضی میں سابق حکومت نے جو معاہدے کئے ہیں جو اقدامات کئے ہیں ان کو درست کرنے میں وقت درکار ہے۔ حکومتی سطح پر سادگی لانے کے اعلانات بھی کئے جا رہے ہیں جو خوش آئند ہیں۔ باقی وزیراعظم کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں بلکہ یہ چراغ دنیا کے کسی بھی حکمران کے پاس ہوتا تو وہ چند لمحوں میں اپنے ملک سے سب سے پہلے مہنگائی ختم کرتا۔ یہ وقت کے ساتھ ختم ہو گی ۔ حکومت لوڈشیڈنگ کو ختم اور کم کرنے کے لئے بھی کئی اقدامات کر رہی ہے سابق حکومت نے جن پر توجہ دینا گوارا نہیں کیا۔ امید ہے وزیراعظم شہباز شریف کے یہ اقدامات ملکی خوش حالی اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے موثر ثابت ہوں گے۔
٭…٭…٭