اب یہ بحث ختم ہو جانی چاہیے کہ کس حکومت نے کتنا قرضہ کن سخت شرائط پر لیا تھا۔ اب ہمیں ایک آزاد، خودمختار، باوقار اور جرأت مند قوم کی طرح سوچنا ہو گا کہ آخر ان قرضوں کی دلدل سے کیسے نکلنا ہو گا اور قرضوں کے ’’غلامانہ طوق‘‘ کو کیسے اتارنا ہے۔ یقینا اس اہم قومی مسئلے پر حکومت ، اپوزیشن اور عوام کو یک جا اور متحد ہونا پڑے گا اپنے سیاسی اختلافات کو وسیع تر قومی مفاد میں پسِ پشت ڈالنا ہو گا اور ہمت، عزم، حوصلے اور جامع منصوبہ بندی کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا ہو گا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ اب ہم نے اپنے ’’کشکول گدائی‘‘ کو ہر صورت میں توڑنا ہے نعروں کی حد تک نہیں بلکہ عملاً یہ قومی ذمہ داری ادا کرنی ہے ہمیں یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی ہے کہ دنیا کے کئی ممالک عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے آزادیبھی ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی ، معدنی اور انسانی وسائل سے نوازا ہے لیکن ہم اللہ کی دی ہوئی بیش بہا نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے ذاتی، گروہی، علاقائی اور سیاسی مفادات کے لیے آپس میں ’’دست و گریبان‘‘ ہیں۔ علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان اور قائد اعظم کے خوابوں کے برعکس ہم اس ملک کو چلا رہے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت کے ہمارے دعوے صرف نعروں کی حد تک ہیں۔ ہم ہر وقت ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ’’بلند بانگ‘‘ دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقتاً ہمارا حال غلام قوموں سے کم نہیں ہے۔ غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے ہماری خود مختاری، خود داری عزت اور وقار خاک میں مل چکا ہے اور ہم عملاً عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر نظام حکومت اور معیشت چلانے پر مجبور ہیں ہمیں قرض دینے والے ادارے ’’شاہی فرمان‘‘ جاری کرتے ہیں کہ عوام پر مزید ٹیکس لگائو، بجلی گیس اور پٹرول مہنگا کرو، اشیائے ضروریہ پر سب سڈی ختم کرو ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائو، پنشن کا خاتمہ کرو اور ہم ایک تابعدار غلام کی طرح اسے تسلیم کر لیتے ہیں اور پھر ہماری حکومت اور اُس کے ترجمان ان ملک اور عوام دشمن فیصلوں کے حق میں نہ جانے کہاں کہاں سے تاویلیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ ہماری کسی بھی حکومت نے ان عالمی ساہو کاروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے شعوری طور پر نہ کوئی کوشش کی ہے اور نہ ہی منصوبہ بندی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کے نام سے کشکول گدائی کو توڑنے کیلئے زبردست مہم چلائی جس میں اندرون اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں نے دل کھول کر چندہ دیا لیکن پھر یہ مہم بھی سیاست کا شکار ہو گئی۔ اس مہم کی ناکامی کے بعد عوام کا حکومت پر کوئی اعتماد رہا نہ کوئی بھروسہ ۔ یہ بے اعتمادی کی فضا ابھی تک قائم ہے۔ اس فلاپ تجربے کے بعد ہم نے اپنی ’’ناکامیوں اور ادائوں ‘‘ پر غور کرنے کی بجائے کشکول گدائی کو ہر ایک کے سامنے پھیلانا شروع کر دیا۔ ہماری ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ ’’لاکھوں روپے کا مقروض‘‘ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو ملک و قوم کے قرضوں کی دلدل میں مزید پھنسنے کی قطعاً کوئی فکر نہیں ہے۔ ہمارے منتخب نمائندے تو اپنی تنخواہوں الائونسز اور دوسری مراعات کو بڑھانے کے چکروں میں رہتے ہیں ۔مالی مفادات کے حصول کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہمیشہ کامل یکجہتی پائی جاتی ہے کاش ملک و قوم کیلئے اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کیلئے یہ سارے سرجوڑ کر کوئی قابل عمل پالیسی بناتے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرضوں کا بوجھ اُتر سکتا ہے یا کسی حد تک کم ہو سکتا ہے؟ اس مقصد کے حصول کیلئے سب سے پہلے ملک کے اندر یک جہتی، اعتماد اور اعتبار کی فضا قائم کرنا ہو گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس اہم قومی مقصد کے حصول کیلئے حکومت اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں۔ اس معاملے پر سب سے اہم ذمہ داری حکومتِ وقت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اپوزیشن کا یہ فرض ہے کہ وہ حکومت سے سیاسی حساب کتاب کرنے کی بجائے ملکی مفاد میں حکومت سے غیر مشروط تعاون کرے۔البتہ جب تک قرضہ اتارنے کی اس قومی مہم میں عوام شامل نہیں ہوتے، کامیابی ناممکن ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے عوام کو ریلیف دیا جائے، مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے، پٹرولیم مصنوعات بجلی گیس کی قیمتیں کم کی جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوڈشیڈنگ ختم کی جائے ایسے اقدامات کرنے سے عوام ملک پر قرضہ اتارنے کی مہم میں خوشی سے شریک ہو ں گے۔ عوام کے علاوہ صنعتکاروں سرمایہ کاروں اور تاجروں کو ٹیکس ریلیف دیئے جائیں کیونکہ اس مہم میں سب سے زیادہ عطیات اسی شعبے سے آئیں گے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ اعلیٰ اختیاراتی ٹاسک فورس بنائے جو دن رات کام کر کے ہنگامی نبیادوں پر اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرے۔ ہمیں ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دلانے کیلئے ہر سطح پر اور ہر شعبے میں بچت کی عادت اپنانی ہے اور اسے فروغ بھی دینا ہے۔ بجلی کی بچت‘ پٹرول کی بچت‘ گیس کی بچت کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کواپنے ملکی اورغیرملکی دوروں‘ سیاسی جماعتوں کو جلسے ‘ جلوسوں کو ترک کرنا‘ عوام کو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کو انتہائی سادگی سے منانا ہوگا۔
ہمیں قرضوں کے سہارے چلنے والی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ ہمیں اس معاشی اور مالی بحران سے ایک خود مختار‘ خود دار اور باوقار قوم کی حیثیت نمٹنا ہے ہمیں اس وقت حضرت قائداعظم کے روشن فرمودات۔ اتحاد تنظیم یقین محکم اور کام کام اور بس کام پر عمل کرنا ہے اور عزم‘ حوصلے‘ صبر اور جرات کے ساتھ ملک و قوم کو ترقی دینی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو معدنی وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ ہمیں زمینوں پہاڑوں صحراؤں اور سمندر میں چھپے ان قیمتی خزانوں کو ڈھونڈنا ہے‘ ہمیں غذائی تحفظ کیلئے اپنی زراعت کو ترقی دینی ہے۔ ہمیں اپنی صنعتیں پیداوار اور برآمدات کو بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہیں۔ درآمدات کو کم کرنے اور سملنگ کے خاتمے کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنی ہے۔ ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انسانی خدمات کے شعبے کو ترقی دینی ہے‘ ہمیں مضبوط خارجہ پالیسی خاص کر دوست ممالک اور اسلامی ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے ہیں۔ تمام قوم یک جا ہو کر یہ سوچ لے اور فیصلہ کرے کہ آج کے بعد ہم اپنے ملکی وسائل پر بھروسہ کرینگے اور کوئی نیا قرضہ نہیں لیں گے اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ان قرضوں سے چھٹکارے کی طرف قدم بڑھائیں اس میں مزید تاخیر ناقابل برداشت مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
کیا ہمارا کشکول ِگدائی کبھی ٹوٹ سکے گا؟
Jun 09, 2022