’شوق دا مل نئیں‘ دنیا کے عمر رسیدہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر

حنیف چودھری طویل عرصہ امروز سے وابستہ رہے، سب ایڈیٹر سے سینئر ایڈیٹر تک مختلف حیثیتوں میں کام کیا۔اس عرصے میں ادبی تخلیقی سفر جاری رہا۔ ستر کی دہائی میںپنجابی میں ماسٹر کر چکے تھے۔ ’پی ایچ ڈی‘ کا خیال آیا توپنجاب یونیورسٹی میں رجسٹریشن کروائی، ’پنجابی نکی کہانی‘ موضوع منتخب کیا۔ تحقیق کے سلسلے میں1981میں بھارت جانا ہوا۔واپس آئے تو ’بھارت پھیری‘کے ذریعے اپنی پہچان سفر نامہ نگار کی حیثیت سے کروائی۔ اسی سفر کے دوران ایک واقعے نے انہیں چودھری حنیف سے صوفی حنیف بنا دیا۔ واقعہ یوں ہے کہ بھارت میں جس گھر میں مقیم تھے، ہمسائے میں کوئی ہندو فیملی تھی، ایک روز ہمسائی اپنے بچے کو لے کر آئی کہ اسے فلاں بیماری ہے بہت علاج کروا چکے آفاقہ نہیں ہو رہا۔ آپ مسلمانو ں کے بارے میں سنا ہے کہ دم پڑھتے ہیں تو مرض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسے ٹالنے کی کوشش کی مگر وہ بضد رہی۔ انہیں جو آیات، سورہ یاد تھیں پڑھ کردم کیا، ساتھ اللہ سے دعا کی کہ اپنی آیات کو بھرم رکھنا اور اس کا یقین ٹوٹنے نہ دینا۔ کچھ دن بعد وہ بہت ساری نذر نیاز کے ساتھ آئی اور بتایا، ’بچہ بالکل ٹھیک ہے‘، تب انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سوچا، ’اگر میرا رب مجھ جیسے داڑھی منے ، گناہ گار کی سن سکتا ہے، تو کیوں نہ میں داڑھی رکھ کراس کے حکم پر چلنے والوں میں شامل ہوجاؤں‘،تب سے ان پر اللہ کا خاص کرم ہے، وہ باقاعدہ پیری مریدی کے قائل نہیں تا ہم لوگ انہیں اسی ناطے سے احترام دیتے ہیں۔ امروز کی بندش کے بعد مشکل حالات بھی دیکھے مگر ہمت نہیں ہاری۔ 2002ء میں بی زیڈ یومیں سرائیکی ریسرچ سنٹر بنا تو ڈاکٹر انوار انہیں بطور ریسرچ سکالر اپنے پاس لے گئے۔ وہاں محنت سے نام کمایا۔ ’ملتان کے صحافتی دفینے،’گرنتھ میں بابا فرید کے اشلوک‘، ’مطالعہ فرید کا نیا رُخ‘جیسے شاہکار اسی زمانے کی یاد گار ہیں۔ میں نے انہیں یہاڈمیں پنجابی بورڈ آف سٹڈیز میں ممبر لیا اور انہیں بی اے، ایم اے کے ایگزامینر کی فہرست میں شامل کیا۔جس سے انکی مصروفیت میں اضافہ ہوا اور مالی پریشانیاں بھی کچھ کم ہوئیں۔
2004میں ڈاکٹر انعام ا لحق جاویدعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں’شعبہ پاکستانی زبانیں‘ کے چیئر پرسن بنے توانہوں نے چھ پاکستانی زبانوں میں ’ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی‘ شروع کروائی۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے رابطہ کیا۔جب ان سے بات ہوئی تواتفاقاً ’بابا جی‘ میرے ساتھ تھے ۔ میں نے کہا کہ’ اگر عمر کی قید نہ ہو تو ہم( بابا جی اور میں) آپکے سٹوڈنٹس بننے کو تیار ہیں‘۔ یہ سن کر بابا جی بولے،’یار میری کوئی عمر ہے ‘ ، میں کہا، ’بابا جی گھبرائیے نہیں، ڈگری لینا ہمارا مقصد نہیں کچھ دن شغل رہے گا‘، میں نے ان کا بھی داخلہ فارم بھجوا دیا۔ ٹیسٹ اور انٹرویو کا مرحلہ آیا تو’بابا جی ‘نے انکار کر دیا۔ ٹیسٹ کے بعد کیلئے پیش ہوا تو ڈاکٹر انعام الحق جاوید دیکھتے ہی بولے،’ بابا جی کہاں ہیں؟میں نے کہا،’ انہوں نے انکار کر دیا ہے‘۔ کہنے لگے ، ’جب تک وہ نہیں آتے، تمہارا داخلہ بھی نہیں ہو گا، انہیں بلواؤ‘، میرے اصرارپر باباجی طویل سفر کر کے اگلے دن الصبح اسلام آبادپہنچے۔ انہیں بس سٹینڈ سے لیا، ہاسٹل آئے، ناشتہ کیا اور شعبہ میں حاضر ہو گے، رسمی سی گفتگو کے بعد ہمیں نوید سنائی گئی کہ آپ دونوں کا ایڈمشن ہو گیا۔پھر ڈاکٹر صاحب ہمیں لے وائس چانسلر سے ملاقات کیلئے گئے۔انہیں جب بتایاکہ بابا جی75سال کی عمر میں یونیورسٹی کے عمر رسیدہ سٹوڈنٹ ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے خبر نامہ کیلیے تصاویر بنوائیں اور ہدایت دی کہ اسی کیپشن کے ساتھ تصاویر شائع کی جائیں ۔یوں اوپن یونیورسٹی کے ایم فل کے طالب علم کی حیثیت سے ایک نیا سفر شروع ہوا۔مجھے فخر ہے کہ دو سال میں انکا ’کلاس فیلو‘ رہا، ورکشاپس میں اکٹھے شریک ہوئے۔ دوسرے سمسٹر تک ساتھ رہا، اسی عرصے میں بی زیڈ یوسے میری پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی،یوں میرا سفر تمام ہوا ، بابا جی نے ہمت نہ ہاری اور 2010 میں ’خواجہ غلام فرید کی سرائیکی کافیوں پر سندھی ، پنجابی کے لسانی اثرات‘ کے موضوع پر ڈاکٹر انوار احمد کی نگرانی میںایم فل مکمل کر لیا تب انکی عمر 81برس تھی۔
 آخر کار انہیں پی ایچ ڈی کیلئے قائل کر لیااس یقین دہانی پر کہ ’گائیڈ تم بنو گے‘ انہوںنے حامی بھر لی۔ باہمی مشاورت سے ’کلامِ علی حیدر کا اسلوبیاتی تنوع‘ موضوع طے ہوا۔اسی عرصہ میںبی زیڈ یو میں بی ایس انگریزی کی شام کی کلاسز کو پنجابی پڑھانے کیلیے صدرِ شعبہ نے مجھ سے رابطہ کیا۔میں نے بابا جی کو ’پھنسا‘ دیا۔ وہ ہفتے میں تین دن یونیورسٹی تشریف لاتے،یوں پی ایچ ڈی کا کام بھی کرتے۔فروری2018میں’ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج،آرٹ اینڈ کلچر‘نے انہیں ’پرائیڈ آف پنجاب‘ کے اعزاز سے نوازا۔گذشتہ ہفتے ضلعی انتظامیہ ملتان نے ان کے گھرپر اعزازی تختی نصب کر کے انہیںکی عظمت کا اعتراف کیا ۔لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی نے ان کی ’افسانہ نگاری‘ پرایم فل کر وایا، ان کی’ شخصیت اور فن‘ پرپی ایچ ڈی سعدیہ حسن نے اوپن یونیورسٹی سی کی،میرے لیے ایک اور اعزاز کہ اس مقالے کا بھی میں نگران تھا (ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن