فرحان انجم ملغانی:قومی افق(ملتان)
سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی تقریباً ایک ماہ بعد اڈیالہ جیل سے رہائی اور جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتاری عمل میں نہ لائے جانے پر چہ مگوئیاں جاری ہیں کیونکہ 9 مئی کے بعد گرفتار ہونیوالے پی ٹی آئی رہنماؤں کو عدالت سے ضمانت ملنے کے باوجود جیل سے باہر آتے ہی کسی دوسرے کیس میں دھرلیا جاتا ہے یا پھر ان رہنماؤں کو رہائی کا پروانہ ملا جس نے جیل سے نکلتے ہی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی چھوڑنے اور سیاست سے توبہ تائب ہونے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی 9 مئی کے افسوسناک واقعات کی پرزور مذمت بھی کی جبکہ سابق وزیر خارجہ و پاکستان تحریک انصاف کے نائب کپتان مخدوم شاہ محمود قریشی کی منگل کے روز لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ سے ضمانت کے فیصلے کے بعد اڈیالہ جیل سے باہر آ جانے پر دوبارہ گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کی گئی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی سے گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی چھوڑنے والے فواد چوہدری اور علی امین زیدی نے اڈیالہ جیل جاکر ملاقات بھی کی اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی مگر فواد چوہدری نے اسوقت پی ٹی آئی کے جن دیگر رہنماؤں سے رابطوں کا دعویٰ کیا انکی جانب سے تردید سامنے آگئی۔ بہرحال ضمانت پر رہائی کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے انتہائی محتاط اور نپی تلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کارکنوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں انصاف کا جھنڈا ہمارے ہاتھ میں ہے ،میں چئیرمین پی ٹی آئی کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور ان سے رہنمائی کے بعد میڈیا سے تفصیلی گفتگو کرونگا، میں آج بھی اس تحریک کا حصہ ہوں،قید تنہائی میں مجھے سوچنے کا بہت وقت ملا ، قید تنہائی سے مجھے ہمت اور حوصلہ ملا ۔رہائی تھری ایم پی او کے خلاف تفصیلی فیصلہ کا نتیجہ ہے ، جب میں قید میں تھا توکسی کو کیسے اکسا سکتا یا ہدایات دے سکتاتھا۔ پراسیکیوشن کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔قید تنہائی میں بچے بچیوں اورمیری فیملی نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میں اپنی بہنوں اور خاندان والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،پی ٹی آئی کارکنان کو کہتا ہوں مشکل کا وقت ہے ہمت نہ ہاریں،یہ رات بھی کٹ جائے گی ، ہر رات کے بعدصبح ہوتی ہے۔آج بھی مختلف جیلوں میں ایسے لوگ ہیں جو بے گناہ ہیں انہیں رہا ہونا چاہیے،ہم ان کے کیسز کو بھی چلائیں گے تاکہ ان کو رہائی مل سکے۔یہ تو مخدوم شاہ محمود کی رہائی کے فوری بعد میڈیا سے گفتگو تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی کیا موقف پیش کرتے ہیں اس سے اندازہ ہوگا کہ انکی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کیا ہوگی۔
دوسری جانب جنوبی پنجاب سے جہانگیر ترین سانحہ 9 مئی کے بعد سے خاصے متحرک ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر انکی پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور متحرک سیاست دانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے،وہ نئی سیاسی جماعت بنانے جارہے ہیں ۔ماضی میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا نیا دھڑا بھی تشکیل دیا گیا تھا۔ ملکی سیاست میں اثرورسوخ رکھنے والی طاقتوں نے ہمیشہ مختلف قسم کے پلان مرتب کئے ہوتے ہیں اور پلان اے ،پلان بی اور پلان سی میں سے کس کی لاٹری نکلتی ہے اسکا انحصار آئندہ دنوں واضح ہو جائیگا۔ دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی بھی وفاق میں اپنی حکومت تشکیل دینے کی غرض سے جنوبی پنجاب کو فوکس کئے ہوئے ہے اور پنجاب میں یہ ہی وہ خطہ ہے جہاں محنت کرکے پاکستان پیپلز پارٹی مثبت نتائج حاصل کرسکتی ہے اس ضمن میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا اہم کردار ہوگا، سید یوسف رضا گیلانی جنوبی پنجاب کو پیپلزپارٹی کا منی لاڑکانہ بنانے کیلئے متحرک ہیں، عید الاضحی کے بعد آصف زرداری ملتان میں ڈیرے لگائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے ناراض رہنماؤں کے پی پی پی میں شمولیت کی بڑی وجہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ہیں جنکے تمام سیاستدانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اس حوالے سے اہم ہے۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے علاوہ ن لیگ کے بھی کئی اہم رہنماپی پی پی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں سید یوسف رضا گیلانی کے تعلقات اس حوالے سے سب سے زیادہ مستحکم قرار دئیے جارہے ہیں۔ ان سے پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے بعض رہنماؤں نے ازخود رابطہ کر لیا تھا۔ اسی طرح اس وقت تک پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے صرف جنوبی پنجاب کے اضلاع مظفر گڑھ ، ڈیرہ غازی خان ، لیہ ، بھکر ، میانوالی ، بہاولپور ،۔ بہاولنگر ، خانیوال ، وہاڑی ، لودھراں، راجن پور ، رحیم یار خان سے 40 سے زائد اہم شخصیات پیپلزپارٹی سے رابطے میں ہیں۔دوسری جانب مسلم لیگ ن نے بھی پی ٹی آئی سے الگ ہونے والے ایسے رہنماؤں کو اپنی جماعت میں لینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم تاحال مسلم لیگ ن اس ریس میں بہت پیچھے دکھائی دے رہی ہے۔سیاسی ذرائع نے بتایا ہے کہ تحریک انصاف چھوڑنے والوں کو اپنی جماعتوں میں لینے کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کے عمل میں شامل نہ ہو سکیں۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو زیادہ سے زیادہ اپنی جماعت میں لینے کے معاملہ پر اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلافی خلیج بھی پیدا سکتی ہے۔ بہرحال ملکی سیاسی صورتحال میں روزبروز تبدیلی کے باعث ابھی صورت حال واضح نہیں کیونکہ عام انتخابات کے اعلان تک سیاسی جوڑ توڑ اپنی جگہ مگر اصل فیصلہ عوام کا ہوگا اور عوام جس پر ووٹ کے ذریعے اعتماد کا اظہار کرینگے اقتدار کا ہما اسی کے سر بیٹھے گا۔
رہائی پر شاہ محمود قریشی کی نپی تلی گفتگو، چہ مگوئیاں جاری
Jun 09, 2023