فیصل ادریس بٹ: … قومی افق … کوئٹہ
جہاں ملک میں سیاسی حالات کشیدہ نظر آتے ہیں اور تمام سیاسی پارٹیز اپنی اپنی صف بندیاں مضبوط کرنے میں مصروف ہیں وہاں صوبہ بلوچستان بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان میں بھی سیاسی پارٹیاں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی الیکشن مہم کا آغاز ہی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین کے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے ہوا تھا۔ آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے بطور وزیر خارجہ ثابت کیا ہے کہ وہ نا صرف بھٹو کے نواسے ہیں بلکہ بینظیر بھٹو کی سیاست کے خطوط پر چل کران کے شاگردِ خاص بھی ہیں۔
بلاول بھٹو نے اپنی خارجہ پالیسی سے پاکستان کی تنہائی کو نا صرف ختم کیا بلکہ چین کے زیر سایہ بننے والے ایشین بلاک میں ایک نمایاں ممبر کی صورت میں پاکستان کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آنے والے وقت میں بلاول بھٹو زرداری اپنی اس سفارتکاری کے بل بوتے پر آئندہ انتخابات میں منتخب ہو کر وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار بن سکتے ہیں۔ پہلی مرتبہ بلاول بھٹو زرداری اپنا آبائی حلقہ چھوڑ کر صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان سے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ اُن کے نیچے ممبر صوبائی اسمبلی کے طور پر مخدوم احمد محمود الیکشن پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر لڑیں گے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اس وقت ملک میں سیاسی درجہ حرارت آسمان کو چھو رہا ہے۔ حکومت میں شامل اتحادی پارٹیاں اور اپوزیشن گومگو کیفیت سے دوچار ہیں اور پورے ملک کے عوام ایک ہی سوال کا جواب چاہے ہیں کہ کیا عام انتخابات اپنی مقررہ مدت پر ہو سکیں گے۔ یہاں کوئی اور پس پردہ فارمولا زیر غور ہے۔ ان حالات میں بے یقینی سی کیفیت سے دوچار تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کی تیاریاں بھی کر رہی ہیں۔ اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے حصہ لے گی۔ اس وقت سب سے کڑا امتحان مسلم لیگ ن کا ہے جس کے سربراہ ہر صورت مقررہ وقت پر الیکشن کو چاہتے ہیں مگر یہ بھی علم رکھتے ہیں کہ جان لیوا مہنگائی مسلم لیگ کے ووٹ بنک کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
میاں نوازشریف وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو پابند کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی معاونت کے بغیر عوام دوست بجٹ پیش کرنے کی کوشش کریں۔ اب دیکھتے ہیں کہ اسحاق ڈار اپنی تمام تر صلاحیتیں کو بروئے کار لا کر عوام دوست بجٹ دے سکیں گے یا نہیں۔ دوسری جانب حکومت کے سب سے بڑے اتحادی آصف علی زرداری ہمیشہ کی طرح اپنے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف عمل ہیں۔ آصف علی زرداری اپنا گھر سندھ کو چھوڑ کر پنجاب کے دل لاہور میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں اور جنوبی پنجاب کے فیصلہ کن سیاسی محاذ کا جن بوتل میں قابو کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ آصف علی زرداری جس تیزی سے تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو اپنی جماعت میں شامل کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی آصف علی زرداری پر مہربان ہے اور یہ خبر بھی عام ہے کہ آئندہ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے سیاسی قد کاٹھ رکھنے والے افراد اپنا اگلا مسکن پیپلزپارٹی کو سمجھ رہے ہیں۔ دوسری جانب جہانگیر ترین کو بھی اس دوڑ میں شامل کروایا گیا ہے۔ جہانگیر ترین بھی آج پچاس کے قریب سیاست دان اپنی نئی پارٹی میں شامل کر کے اُن کے ہمراہ پریس کانفرنس کریں گے۔
جہانگیر ترین کو وہ کامیابی تاحال نہیں مل سکی جس کی وہ اہلیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ شنید ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات کی وجہ سے گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔ گرفتاری کی صورت میں شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کو یکجا کرنے کی کوشش کریں گے۔ تحریک انصاف میں عمران خان کے جانے کے بعد اسد عمر، فواد چودھری، اسد قیصر، حماد اظہر اور مسز اینڈ مسٹر جمشید چیمہ اور دیگر جانے والے پنچھی واپس اپنی جماعت میں آجائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے نئے سربراہ کے طور پر حکومت وقت سے مذاکرات کر کے پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے مستعفی اراکین کی واپسی کا معاملہ بھی احسن طریقے سے حل کر لیں گے اور راجہ ریاض کو ہٹا کر اپوزیشن لیڈر کے منصب پر بھی فائز ہو جائیں گے۔ شاہ محمود قریشی اس طرح تحریک انصاف کو لے کر آگے چلیں گے اور حکومتی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنوا لیں گے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ملک میں پھیلی انارکی افراتفری بے یقینی صورتحال سے چھٹکارا مل جائے گا۔
نوازشریف نے بھی وطن واپسی کے لئے تیاریاں شروع کر دی ہیں اسی ماہ جون میں یہاں اگلے ماہ جولائی کے آغاز میں نوازشریف پاکستان پہنچ جائیں گے۔ واپس آکر اپنی تاحیات نااہلی اور اپنے پر بنے بے بنیاد کیسز کو عدالتوں کے ذریعے چیلنج کریں گے۔ انصاف حاصل کرنے کے بعد بھرپور الیکشن مہم چلائیں گے۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں کہ انتخابات مقررہ مدت پر نہ ہوں بلکہ مشکل ملکی حالات کی بنیاد پر حکومت ایک سال کی ایکسٹینشن لے لے اس میں معیشت اور ملکی بحرانوں کو حل کر کے عام انتخابات کا انعقاد کرائے اس کے علاوہ یہ فارمولا بھی زیر غور ہے کہ تین سال کے لئے قومی حکومت بنا دی جائے ۔جو ملک کو درپیش مسائل کا حل کرے اور سیاست دان اُن کا ساتھ دیں۔ دیگر منصوبے میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے قیام کی بھی تجویز زیر غور ہے مگر سب سے بہتر بات یہ ہے کہ حکومت مقررہ مدت میں الیکشن کروا دے۔ 12 اگست کو موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت اختتام پذیر ہو رہی ہے اگر 12 اگست کو اسمبلی ختم ہوتی ہے تو 8 اکتوبر یعنی دو ماہ بعد انتخابات کروائیں جائیں گے۔ اگر حکومت 12 اگست سے ایک ہفتہ قبل اگست کے آغاز میں اسمبلی تحلیل کر دیتی ہے تو انتخابات کیلئے تین ماہ کا عرصہ درکار ہوگا اس صورت میں انتخابات نومبر میں کروانے پڑیں گے۔