ندیم بسرا
حکمران اتحاد کی جانب سے پی ٹی آئی پر دباؤاتنا بڑھ گیا ہے کہ اس کے اپنے رہنما بھی خاموش ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ اس دوران پی ٹی آئی کی جانب اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کر لئے جائیں۔جبکہ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن یہ بات واضح کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہم پہلے بھی مذاکرات کے مخالف تھے اب بھی ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے اور ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتشار پسند اور اشتعال پسندوں سے بات چیت نہیں ہوسکتی،کیونکہ یہ لوگ سیاستدانوںکے لبادے میں ریاستی تنصیبات پر حملہ کرتے ہیں۔ایک طرف جب کوئی بھی سیاسی جماعت تحریک انصاف سے بات نہیں کررہی اورپی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ سے جہاںسیاسی منظرنامے کو ایک نئی شکل دے رہی ہے وہیں اب یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ انتخابی صورت حال کیا ہوگی؟اگر الیکشن کا اعلان بروقت ہو جاتا ہے تو پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کہاں جائے گا؟نئی جماعتوں کے وجود میں آنے سے پی ٹی آئی کا ووٹ ادھر جائے گا۔ترین گروپ ،سرور گروپ ،ہاشم ڈوگر گروپ ،فارورڈ بلا ک کا کیا کردارا ہوگا؟کیا یہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو اپنی طرف لاسکیں گے اگر نہیں لاسکتے تو یہ جماعتیں یا گروپ ’’پانی کا بلبلہ ‘ ‘ ثابت نہ ہو جائیں۔ بتایا تو یہی جارہا ہے کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی چھوڑنے والے ’الیکٹ ایبلز‘ کو اپنی جانب لانا چاہ رہے ہیں جس کے بعدوہ ووٹرز کو ہی ایک نیا آپشن دے سکتے ہیں۔پنجاب جہاں آصف علی زرداری اپنے پاؤں جمانے کو کوشش میں کئی روز سے لاہور میں بیٹھے ہوئے ہیں یہ کہہ چکے ہیں کہ’’ آئندہ میں پنجاب کو ہی اپنا سیاسی ڈیرہ بناؤں گا‘‘۔ ہمیشہ سے ایسے ہی ہورہا ہے کہ پنجاب ایک ایسا میدانِ جنگ ہے جہاں سے جیتنے والی پارٹی ممکنہ طور پر وفاق میں حکومت بناتی ہے۔اس سیاسی رسہ کشی اور سیاسی اتھل پتھل میں پنجاب میںسیاسی جماعتوں ،دھڑوں کے درمیان ووٹ بینک تقسیم ہوجاتا ہے تو وفاق میں حکومت بنانا مشکل ہوگی۔اب بہت سارے حلقوں میں یہ بات ہورہی ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کا رجحان کس سیاسی جماعت کے ساتھ ہوسکتا ہے۔تو کیا پی ٹی آئی کے سپورٹرز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت پر راضی ہوجائیں گے ؟سب سے پہلے تو اس بے یقینی کو ختم کیا جانا چاہئے کہ انتخابات کی کوئی تاریخ کا اعلان کیا جائے، چونکہ پارلیمنٹ کی مدت 16 اگست کو ختم ہورہی ہے اس لیے انتخابات میں تاخیر نہیں ہوسکتی، اس وجہ سے جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگا تو انتخابی اعداد و شمار سیاسی صف بندیوں کا تعین کرنا شروع کردیں گے۔مگر موجودہ حالات میں کسی کو بھی الیکشن کی گہما گہمی نظر نہیں آرہی اسی وجہ سے معیشت بھی انتہائی سست روی کا شکا ر ہے۔سیاسی ماہرین کا اس پر اتفاق ہے کہ سیاست کو معیشت پر فوقیت دینے کی وجہ سے ہمارے ملک کی صورتحال خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ ملک کا مستقبل معاشی و سیاسی غیریقینی کی صورتحال میں گھرا ہوا ہے۔ان مسائل کوحل کرنے کے لیے ساختی اصلاحات اور فیصلہ کْن اقدامات کی ضرورت ہے۔ملکی سیاسی صورت حال میں شدید تناؤ ہے اور اس وقت عوام کو ایک ہی امید ہے کہ ایسا بجٹ پیش ہو جس کے اندر عام عوام کے لئے ریلیف دیا جائے اور خصوصی اقدامات کئے جائیں۔سیاسی لوگوں اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ مشکل معاشی صورتحال کی وجہ سے موجودہ حکمران اتحاد کی سیاسی مقبولیت کم ترین سطح پر ہے۔ایک جانب نظر دوڑائیں تو ایسا ہی لگتا ہے دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی جارحانہ پالیساں سب کے سامنے آرہی ہیں۔یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ بجٹ پیش ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں مگر حقیقت میں ایساہوتا نظر نہیں آرہا۔قومی اسمبلی اورپی ڈی ایم کی یہ حکومت اگست میں اپنی مدت پوری کریں گی اور متوقع طور پر ستمبر یا اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان آئین کا تقاضہ کرتا ہے۔ ایسے میں حکومت کے لیے ناگزیر اقدامات اٹھانا ہوںگے جن سے مہنگائی اور بیروزگاری کی ستائی ہوئی عوام کو کسی حد تک ریلیف مل سکے۔ ماہرین اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ بجٹ میں اہم قانون سازی کے لیے بعض تجاویز فنانس بل کا حصہ ہوسکتی ہیں۔