اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزےر خزانہ اسحاق دار نے ملازمےن کی تنخواہ اور پنشن مےں اضافہ کرنے اور کم از کم اجرت کو بڑھانے کا عندےہ دےتے ہوئے کہا ہے کہ جتنی گنجائش ہو گی اضافہ دےں گے، نئے الےکش کے لئے بجٹ مےں42 ارب روپے رکھ رہے ہےں،آئی اےم اےف کا موجودہ پروگرام 30جون کو مکمل ہو جائےگا اور نئے پروگرام کا معاملہ آئندہ کی حکومت پر چھوڑ دےنا چاہئے، الےکشن کے بعد مےثاق معےشت پر بھی بات ہونا چاہئے، حکومت نے سےاسی قےمت ادا کر کے ملک کو ڈےفالٹ ہونے اور سری لنکا بننے سے بچاےا ،آئی اےم اےف سے معاہدہ ہ نہ ہونے کی صورت مےں پلان بی موجود ہے، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ان خےالات کا اظہار قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کرتے ہوئے کےا ، اقتصادی سروے مےں بتاےا گےا ہےکہ ملک نے اےک بڑے مارجن سے جی ڈی پی گروتھ رےٹ کو حاصل نہےں کےا، برآمدات کا ہدف حاصل نہےں ہو سکا، صنعتی شعبہ 3 فیصد تک سکڑ گیا۔ وزےر خزانہ کی پرےس کانفرنس مےں وفاقی وزےر منصوبہ بندی احسن اقبال ،وفاقی وزےر صنعت و پےدا وار اور دےگر حکام موجود تھے، وزےر خزانہ نے کہا کہ جب 2013 میں مسلم لیگ نون نے حکومت سنبھالی تھی تو حکومت کی ترجیحات میں تھری ایز شامل تھے، اب جو ترجیحات میں شامل ہیں ان میں مینوفیکچرنگ، آئی ٹی اور زراعت کو شامل کیا گیا ہے، میکرو اکنامکس استحکام کی بحالی کے لئے پلان بنایا گیا ہے، 2017 میں پاکستان کی معیشت 24 ویں نمبر پر تھی آج 47 وےں نمبر پر ہے، اب ترقی کا سفر بحال کرنا ہے اور رفتار کو تیز کرنا ہے، اس سے مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں 100 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، موجودہ حکومت نے جب ذمہ داری سنبھالی تو ملک کی معیشت کو چیلنجز کا سامنا تھا مالی گنجائےش نہےں تھی، مہنگائی آسمان پر تھی، اگر حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہ کرتی تو اس وقت کہاں پاکستان کہاں کھڑا ہوتا ہے، حکومت نے جدوجہد کرکے معیشت کے مسائل کو روکا اور اب بہتری آ رہی ہے، سابق حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور ملک کی ساکھ کو تباہ کر دیا، وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال ملک کے اندر غیر معمولی سیلاب آیا جس سے ملک کی معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کو تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا، چار سال میں اس کی تعمیر نو میں 16ارب ڈالر خرچ ہوں گے جس میں سے آدھا پیسہ حکومت پاکستان دے گی۔ یہ کام چار سال میں مکمل کرنا ہے، مسلم لیگ نون کی حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا تھا، پاکستان کی خاطر سیاسی لاگت کو برداشت کیا ہے، اسٹرکچرل اور مالی اصلاحات کی، انرجی سیکٹر میں اصلاحات کی، اےل سی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو گیا ہے۔ مونیٹری پالیسی کو افراط زرکی وجہ سے سخت کیا گیا، انتظامی اقدامات کئے گندم کی سمگلنگ کو روکا5.6 ڈالر کے قرضے واپس کیے، ملک سے باہر بیٹھ کر کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان نے اب تک کیوں ڈیفالٹ نہیں کیا؟ حکومت نے اسی وجہ سے پہلی ترجیح ملک کے ساورن وعدوں کو پورا کرنے پر دی ، ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کیا جائےگا جو گنجائش نکل سکتی ہے وہ نکالی جائے گی، پنشن اور تنخواہ اضافہ کی ساری ورکنگ ہو چکی ہے۔ کور افراط زر کو تنخواہ میں اضافہ کے لئے پیش نظر رکھا جائے گا، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ روپے کی ڈی ویلیو نہ کریں تباہی ہو جائےگی، سابق حکومت نے بھی روپے کو کھلا چھوڑ دیا،سٹےٹ بےنک کو بھی کھلی آزادی دے دی، یہ عجیب قسم کا سین ہے، پالیسی ریٹ14سے 21 فیصد کیا گیا، اب اس کو واپس کرنے کی کوشش ہورہی ہے، موجودہ حکومت کے کریڈٹ میں جائے گا کہ اس ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اور سری لنکابننے سے بچایا۔ روپے کی حقیقی ویلےو240 روپے کے قریب ہے، ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ مےثاق معیشت سے بہت اچھی چیز ہے جب الیکشن ہو جائیں گے، تو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، پندرہ سے بیس سال کا روڈ مےپ بننا چاہیے، اس میں طے ہونا چاہئے کہ نو گو ایریا کون سے ہےں۔ کم از کم اجرت میں اضافہ ضروری ہے، انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام نہ ہونے کی صورت میں پلان بی موجود ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے دیں، پاکستان کے قرضے 70 بلین ڈالر ہےں، گیس پائپ لائن ہی سو ارب ڈالر سے زیادہ کی ہے ، پانچ سال آنکھیں بند کر کے خرچے نہ کرتے تو اس حالت کو نہ پہنچتے ، آئی اےم اےف پروگرام 30 جون کو ختم ہونا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ جب نئی حکومت آئے گی تو یہ اس کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ نئے پروگرام پر بات چیت کرے ، سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے پوچھا تھا انہوں نے الیکشن کے لیے47ارب روپے مانگے جس میں سے پانچ ارب روپے دیے جا چکے ہیں 42 ارب بجٹ میں رکھ رہے ر ہے ہےں۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کردیا جس میں واضح طور پر دیکھا گیا کہ صنعتی شعبہ 3 فیصد تک سکڑ گیا۔مالی سال 2023 کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح نمو 0.29 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال میں 6.1 فیصد تھی زرعی شعبہ کی شرح نمو 1.55 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 4.27 فیصد تھی، صنعت کی شرح نمو منفی 2.94 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 6.83 فیصد تھی۔معیشت کے حجم میں 27.1 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 84658 ارب روپے رہا جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصہ کے دوران 66624 ارب روپے تھا۔فی کس آمدنی ایک ہزار 568 ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ہزار 765 ڈالر تھی یوں اس میں 11.2 فیصد کی کمی ہوئی۔مجموعی سرمایہ کاری میں 10.2 فیصد کا اضافہ ہوا جو جی ڈی پی کی 13.6 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال اس میں 29.1 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جو جی ڈی پی کا 15.7 فیصد تھا۔جولائی تا اپریل کے دوران ترسیلات زر 13.0 فیصد کی کمی کے ساتھ 22.7 ارب ڈالر ریکارڈ ہوئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران 26.1 ارب ڈالر تھیں۔رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ کے دوران درآمدات میں 29.2 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 51.2 ارب ڈالر پر آ گئیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران 72.3 ارب ڈالر تھیں۔اسی طرح اس مدت میں برآمدات میں 12.1 فیصد کی کمی ہوئی اور یہ کم ہو کر 25.4 ارب ڈالر پر آ گئیں جو گزشتہ مالی سال 28.9 ارب ڈالر تھیں۔وزیر خزانہ کی جانب سےفراہم کردہ دستاویزات کے مطابق پاکستان نے ختم ہونے والے مالی سال کے لیے مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد حاصل کی، جس سے 5 فیصد کا ہدف بڑے مارجن سے حاصل نہیں ہوا۔یہ معمولی نمو زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بالترتیب 1.55 فیصد، منفی 2.94 فیصد، اور 0.86 فیصد رہی۔سب سے زیادہ قابل ذکر کمی صنعتی شعبے کا 2.94 فیصد سکڑاو¿ تھا، جو کہ 7.1 فیصد ترقی کے ہدف کے مقابلے میں تھا۔دستاویزات کے مطابق پاکستان میں جولائی 2022 سے مئی 2023 تک کے 11 ماہ کے عرصے میں 28.2 فیصد مہنگائی ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 11 فیصد تھی۔حکومت نے مالی سال 2023 کے لیے مہنگائی کا ہدف 11.5 فیصد رکھا تھا لیکن روپے کی قدر میں تیزی سے کمی، درآمدات مہنگی ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر سپلائی کی رکاوٹ کی وجہ سے یہ ہدف ہاتھ سے نکل گیا۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی جولائی سے اپریل تک 16.1 فیصد بڑھ کر 56 کھرب 37 ارب 90 کروڑ روپے ہوگئی۔ٹیکس کلیکشن ایک سال پہلے کی مدت میں 48 کھرب 55 ارب 80 کروڑ روپے تھی۔گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی جانب سے 12 ماہ کی مدت کے لیے وصولی کا ہدف 74 کھرب 70 ارب روپے رکھا گیا تھا۔سروے دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ جولائی سے مارچ کے دوران پاکستان کی برآمدات 9.9 فیصد کم ہو کر 21 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 23 ارب ڈالر تھیں۔ اسی مدت کے دوران درآمدات 43 ارب 70 کروڑ ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 58 ارب 90 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 25.7 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔یہ کمی بنیادی طور پر پالیسی میں سختی اور دیگر انتظامی اقدامات کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ حکومت اپنے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔اس کے نتیجے میں ملک کا تجارتی خسارہ نمایاں طور پر سکڑ کر جی ڈی پی کے 6 فیصد تک پہنچ گیا، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 10.4 فیصد تھا۔کرنٹ اکاو¿نٹ بلینس میں 74.1 فیصد بہتری آئی، جس نے جولائی تا مارچ مالی سال 2023 کے دوران 3.4 ارب ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا جبکہ گزشتہ برس اسی مدت کے دوران خسارہ 13 ارب ڈالر تھا۔اس کی وجہ سے کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد تک سکڑ گیا، جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 4.7 فیصد تھا۔دستاویز کے مطابق اس بہتری کے پیچھے اہم عنصر تجارتی خسارے میں 29.7 فیصد کمی تھی جو درآمدی ادائیگیوں میں جولائی تا مارچ میں 41.5 ارب ڈالر تک کمی سے ہوا اور گزشتہ سال یہ ادائیگیاں 52 ارب 70 کروڑ ڈالر تھیں۔سروے میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 3.6 فیصد تک ’روک دیا گیا‘ جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں یہ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد تھا۔سروے میں کہا گیا کہ یہ ’اخراجات کے محتاط انتظام اور مقامی وسائل کو متحرک کرنے کی ایک مو¿ثر حکمت عملی پر سختی سے عمل کرنے‘ سے حاصل ہوا۔اقتصادی سروے کے مطابق پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے اخراجات جولائی تا مارچ کے عرصے میں 1.8 فیصد کی کمی سے 10 کھرب 14 ارب روپے تک پہنچ گئے جو گزشتہ سال 10 کھرب 32 ارب 70 کروڑ تھے۔سروے میں مزید کہا گیا کہ آئندہ سال کے لیے پی ایس ڈی پی کی فنڈنگ 5 ایز فریم ورک کی حمایت کرنے والے منصوبوں، سیلاب کے بعد کی بحالی، بحالی اور تعمیر نو اور پاک چین اقتصادی راہداری پر مرکوز تھی۔ جولائی تا مارچ کے دوران وفاقی ترقیاتی فنڈ کے استعمال کی رفتار پہلی ششماہی کے لیے سہ ماہی اجرا کی کم حد اور کفایت شعاری کی وجہ سے کم ہونے کی وجہ سے ”نسبتاً سست“ تھی۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس وقت ریونیو کلیکشن کا بڑا حصہ سود کی ادائیگی میں خرچ ہورہا ہے جبکہ اسی ملک کی 2017 میں سود کی ادائیگی 18 سو ارب روپے سے کم تھی جو آج 7 ہزار ارب تک پہنچ چکی ہے۔انہوں نے اس کی وجہ بد انتظامی، قرضوں کے انبار لگانے، پالیسی ریٹ میں اضافے کو قرار دیا جو غیر مستحکم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، مارکیٹ کے اثرات منفی ہیں، جب میں آیا تو کہا گیا کہ ڈالر 200 سے نیچے آئے گا لیکن جو کہ آنا چاہیے تھا اور 190 تک آیا تھا لیکن نہ جانے کون سے خفیہ ہاتھ ہیں کہ جب میں واشنگٹن گیا تو یہ رجحان پلٹ گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کرنسی مصنوعی وجوہات کی وجہ سے انڈر ویلیو ہے، اللہ نے چاہا تو یہ خودبخود بہتر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر ملکی قرضوں میں 4 ارب ڈالر کمی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ اشیا کے تبادلے کی تجارت میں توسیع کی جائے گی، پاکستان، افغانستان اور روس تینوں ممالک کو بینکنگ مسائل کا سامنا ہے، اس کے ذریعے درآمدت میں کمی آئے گی، اسے توسیع دینے کے لیے یمن اور سوڈان پر بھی غور جاری ہے اگر وہ شرائط پورا کریں گے تو اس پر غور کیا جائے گا۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزےر خزانہ اسحاق ڈار آج مالی سال 2023-24 کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی مےں پےش کرےں گے اور بعد ازاں بجٹ کی دستاوےزات سےنٹ مےں بھی رکھی جائےں گی۔ وفاقی کابےنہ پارلیمنٹ ہاﺅس مےں اجلاس مےں بجٹ کی منطوری دے گی۔ بجٹ کا حجم14ہزار ارب روپے سے زائد ہے جس مےں ملکی قرضوں کی ادائےگی، سبسڈےز، گلگت وبلتستان کے لئے سستی گندم کی فراہمی کے لئے مالی وسائل مختص کئے گئے ہےں۔ آئی ٹی سےکٹر، زراعت اور کسانوں کے لئے پےکج دیئے جا رہے ہےں۔ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے سکےمےں بجٹ کا حصہ ہوں گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک الاو¿نس، میڈیکل اور دوسرے الا¶نسز مےں اضافہ متوقع ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے متعلق 3 تجاویز تیار کی گئی ہیں جو وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے خصوصی اجلاس میں پیش کی جائیں گی اور اسی اجلاس میں ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کے ساتھ ساتھ الاو¿نسز میں اضافے کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس کے لئے مختلف آپشن تےار کر کے ان کے مالی مضمرات کو پےش نظر رکھا گےا ہے۔ کابےنہ اس بارے مےں حتمی فےصلہ کرے گی۔ بجٹ مےں دفاع اور درآمدات کے لئے بھی مالی وسائل مختص کئے جا رہے ہےں۔ سستے مکانات کی فراہمی کے لئے بھی وسائل فراہم کئے جائےں گے۔ ذرائع کے مطابق مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں مالی خسارہ 7.7 فیصد رکھے جانے کا امکان ہے۔ اگلے مالی سال کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9200 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔ نان ٹیکس آمدن کی مد میں 2800 ارب روپے کا ٹارگٹ مختص کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سبسڈی کا حجم تقریباً 1300 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ سبسڈی پاور کے شعبے کے لیے رکھی جا رہی ہے جو 976 ارب روپے ہو گی۔ بجٹ میں 7400 ارب روپے قرض و سود کی ادائیگی پر خرچ ہونگے۔ قرض اور سود کی ادائیگیوں کے لیے 7300 ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔ آئندہ بجٹ میں دفاع کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 430 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ اگلے مالی سال کے لیے مجموعی طور پر 2500 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہو گا۔ مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم پچھلے سال کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ ہو گا۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1150 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایل 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کرنے کی تجویزہے، پی ڈی ایل سے 870 ارب روپے حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ درآمدات کا ہدف 58.70 اور برآمدات کا حجم 28.70 ارب ڈالرز رکھا جا رہا ہے۔