زہریلی گیسوں کا بڑھتا اخراج، دہائی کے دوران عالمی درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ 

واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ) زہریلی گیسوں کے اخراج میں ریکارڈ اضافے اور فضائی آلودگی میں کمی کے باعث عالمی سطح پر درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ انتباہ 50 اہم ترین سائنسدانوں کی ایک تحقیق میں کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق 2013 سے 2022 کے دوران انسانوں کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں ریکارڈ شرح سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ موجودہ شرح کو دیکھتے ہوئے عندیہ ملتا ہے کہ ہر دہائی میں 0.2 ڈگری سینٹی گریڈ کی شرح سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس عرصے میں ہر سال کے دوران زہریلی گیسوں کا اخراج بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور ہر سیکنڈ 1700 ٹن گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے جو سال بھر میں 54 ارب ٹن بنتا ہے۔ تحقیق کے نتائج میں عندیہ دیا گیا کہ 2015 کے پیرس معاہدے کے تحت درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے ہدف کا حصول بہت مشکل محسوس ہوتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ ابھی درجہ حرارت میں صنعتی عہد سے پہلے کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ نہیں ہوا، مگر زہریلی گیسوں کا اخراج جس شرح سے ہو رہا ہے وہ موسمیاتی حالات کو بدترین بنا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت میں اضافے کو کسی طرح 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے میں کامیابی حاصل ہونے پر بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر زہریلی گیسوں کے اخراج کی شرح میں کمی لانے کی ضرورت ہوگی۔ تحقیق کے مطابق پیرس معاہدے کے اہداف کے حصول کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شرح کو 2030 تک کم از کم 40 فیصد تک کم کرنا ہوگا جبکہ اس صدی کے وسط تک 100 فیصد کمی لانا ہوگی۔ کوئلے کے استعمال میں بتدریج کمی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافے کی شرح سست ہوگئی۔ تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی سے مختصر مدت کے لیے درجہ حرارت میں نصف ڈگری سینٹی گریڈ کمی آتی ہے، مگر فضا زیادہ صاف ہونے سے سورج کی زیادہ حرارت زمین کی سطح پر پہنچ رہی ہے۔ محققین نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات کو محدود کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں۔ زمین اور سمندر کی سطح کے درجہ حرارت میں گزشتہ 10 سال کے دوران اوسطاً نصف ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا۔ طویل دورانیے کی شدید ہیٹ ویوز سے آنے والی دہائیوں میں جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں اموات کا خطرہ بڑھ جائے گا جبکہ افریقا اور لاطینی امریکا کے خطے بھی متاثر ہوں گے۔ اس ڈیٹا کو رواں سال دبئی میں اقوام متحدہ کے زیرتحت شیڈول موسمیاتی کانفرنس کے دوران پیش کیا جائے گا تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے پیرس معاہدے کے اہداف کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ لیا جاسکے۔
عالمی درجہ حرارت 

ای پیپر دی نیشن