بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اور ملک کی معاشی صورتحال

معاشی طور پر پاکستان بد ترین صورتحال سے دو چار ہے۔ ایک طرف اندرونی اور بیرونی مالیاتی اداروں کا قرضہ ہے تو دوسری طرف پاکستانی روپے کی بڑھتی ہوئی بے قدری ہے۔ ایسے میں قرض اتارنے کے لیے مزید قرض کا حصول ناگزیر ہو چکا ہے۔ ڈالر نایاب ہیں۔ ڈالر کی کمی اور روپے کی قدر کو سہارا دینے کے لیے امپورٹ پر لگائی گئی پابندیاں عارضی طور پر ریلیف کا سبب ضروربنی ہیں لیکن اسکے نتیجے میں ملکی صنعت پر پڑنے والے منفی اثرات نے بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے۔ یہ تمام مشکلات اچانک وارد نہیں ہوئیں بلکہ برس ہا برس سے جاری ان معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جس میں ٹیکس کے نو آبادیاتی نظام کو صرف عوام الناس سے وصولیوں تک محدود رکھا گیا اور اس سلسلے میں ملک کی اشرافیہ کو کھلی چھوٹ حاصل رہی ۔ دوسرا بڑا مسئلہ حکومتوں کی طرف سے سیاسی ضرورت کے تحت ایسے غیر پیداواری ترقیاتی منصوبوں کافروغ ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ معیشت پر بوجھ بنتے چلے گئے ۔ اس طرح کے زیادہ تر منصوبے بیرونی قرض سے پایہ تکمیل تک پہنچے۔ ڈالروں میں لیا گیا یہ قرض ملکی معیشت کے لیے رٹ کا شکل اختیار کر گیا یعنی قرض کی ادائیگی میں حائل مشکلات روپے کی قدر میں کمی کا سبب بنیں اور روپے کی گراوٹ قرض کے حجم میں اضافے کا سبب بنتا رہا۔ اب حالت یہ ہے کہ اکثریتی عوام کو صاف پانی ، خالص غذا ، بچوں کے لیے معیاری تعلیم اور علاج معالجہ کے لیے سستی ادویات تک دستیاب نہیں جبکہ ملک کے طبقہ خاص پر نظر دوڑائیں تو یقینی نہیں آتا کہ ان کا تعلق اسی مقروض ملک سے ہے جو معیشت بچانے کے لیے مکمل طور پر حالت جنگ میں ہے۔ ہمارے حکمران سادگی کا درس دیتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ طبقہ اشرافیہ کو سیرو تفریح مطلوب ہو یا انھوں نے خریداری کرنا ہو اس کے لیے ملک سے باہر تشریف لے جاتے ہیں ۔ ان کے پاس اپنے اور بچوں کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت سکیورٹی گارڈز موجود رہتے ہیں اور اگر عوام کے جان ومال کی حفاظت کی بات کریں تو ایک طرف آبادی کے تناسب سے پولیس کی نفری کم ہے دوسرا جو نفری موجود ہے اس کے پاس وقت اور وسائل دونوں کی کمی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ چور ڈکیت ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں ۔ دن دیہاڑے شہریوں کو جہاں موقع ملے لوٹا جارہا ہے۔ تاہم ان تمام مسائل کے باوجود ملک کے اندر حالیہ سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں عوام الناس میں سیاست کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے سیاسی لیڈران سے اندھی عقیدت کی بدولت بڑھتی ہوئی خلیج نے معاشی عدم استحکام کو مزید خطرناک بنا دیا ہے جس کے اثرات بیرون ملک آبادان پاکستانیوں تک پہنچنے لگے ہیں جو سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں اور ملک کے معاشی استحکام میں اپنا مثبت کردار کرتے ہیں۔ 
بیرون ملک قیام پذیر دو طرح کے پاکستانی ہیں، ایک تو وہ جو محنت مزدوری یا دیگر کسی شعبہ میں خدمات کے لیے عرب ریاستوں میں مقیم ہیں ۔یہ سب اپنی آمدن کا بیشتر حصہ پاکستان میں اپنے لواحقین یا بیوی بچوں کو ضرور بھیجتے ہیں ۔یقینا ان کی طرف سے بھیجی گئی یہ رقوم پاکستان کی طرف سے بیرونی ادائیگیوں میں آسانی کا سبب بنتی ہیں۔ دوسرے وہ پاکستانی ہیں جو امریکا، کنیڈا اور دیگر مغربی ممالک میں مستقل رہائش پذیر ہیں اور وہاں کی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی اکثریت ڈاکٹروں او انجینئروں پر مشتمل ہے ۔بہت سے پاکستانی بیرون ملک بڑے تعلیمی اداروں میں تدریس سے وابستہ ہیں یا اپنا نجی کاروبار کرتے ہیں۔ غرض بیرونی دنیا میںخوشحال زندگی گزارنے کے باوجود ان تمام پاکستانیوں کی جذباتی وابستگی اپنے مادر وطن پاکستان کے ساتھ سے ۔ یہ طبقہ بھی سالانہ اربوں ڈالر پاکستان بھیجتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے اندر موجود وطن سے غیر مشروط محبت ہے مگر اب بدقسمتی سے پاکستان کے اندر جاری اقتدار کی کشمکش اور اپنے پسندیدہ لیڈر سے اندھی عقیدت کی دھن میں ملک پر شخصیات کو ترجیح دینے کے اثرات بیرون ملک آباد پاکستانیوں کو بھی بری طرح متاثر کرنے لگے ہیں۔ 
بیرون ملک مقیم پاکستانی امریکی شہریت رکھتے ہوں یا برطانیہ کے شہری ہوں پاکستان سے باہر ان سب کی سیاسی شناخت پاکستان میں کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ بطور پاکستانی ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ان کی طرف سے پاکستان بھیجا جانے والا زرمبادلہ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے معاشی استحکام کا سبب بنتا ہے ۔ گزشتہ 75برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا جب بیرون ملک قیام پذیر پاکستانیوں نے وہاں سے بھیجی گئی اپنی رقوم کو کسی سیاسی جماعت کے مفاد یا کسی سیاسی شخصیت کے اقتدار سے مشروط کیا ہواور شرط لگائی ہو کہ ان کا پسندیدہ لیڈر برسر اقتدار ہوگا تو وہ پیسے بھیجیں گے۔ حیران کن طور پر پاکستان کی موجودہ کشیدگی پر مبنی سیاسی صورتحال اور اس کے حوالے سے جاری پروپیگنڈا مہم کے زیر اثر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ورغلا یاجارہا ہے کہ وہ پاکستان میں رقوم بھیجنا بند کردیں کیونکہ ان کا لیڈر اقتدار سے باہر ہے۔ زرمبادلہ میں رکاوٹ ڈالنے سے ملک میں معاشی مشکلات بڑھتی ہیں تو اس سے وہ طبقات بھی متاثر ہوں گے جو آج شخصیت پرستی کا شکار ہوکر جذبانیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے اگر سیاسی بنیاد پر پاکستان اپنے لواحقین کو پیسے بھیجنا بند کردیں کے یا ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجیں گے اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔ اگر ہم سیاسی مفادات اور اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سوچیں تو ہماری تنگ نظری کے اثرات کسی سیاسی جماعت یا سیاسی لیڈران پر نہیںبلکہ ملک میں بسنے والے تمام پاکستانیوں پر پڑیں گے ۔

ای پیپر دی نیشن