انتظار سحر …جاوید انتظار
pytislamabad@gmail.com
جیسا نظام چلانے والے ہوتے ہیں،سسٹم ویسا ہی ہوتا ہے۔نظام چلانے والے چور ہوں تو سسٹم چور ہوتا ہے۔نظام چلانے والے جمہوری ہوں تو ملک میں جمہوریت نظر آئے گی۔نظام چلانے والے آمر ہوں تو نظام آمریت پر مبنی ہوتا ہے۔نظام چلانے والے ایماندار ہوں تو ملک میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔چور دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک عام سا چور ہوتا ہے جو چوری کرتا ہے۔چوری کر کے کامیاب ہو جاتا ہے یا پکڑا جاتا ہے۔دوسرا ذہین چور ہوتا ہے۔جو چوری بعد میں کرتا ہے۔پہلے واپسی کا راستہ بناتا ہے تاکہ پکڑا نہ جائے۔ہمارے ملک میں عام اور ذہین چوروں کی کوئی کمی نہیں۔عام چور چیزیں پیسے وغیرہ چوری کرتا ہے۔ذہین چور قوم کا خون نچوڑ کر اپنا ذاتی خزانہ بھرتا ہے۔پکڑا بھی نہیں جاتا۔جیلیں عام چوروں سے بھری پڑی ہیں۔لیکن ذہین چور سنگھاسن اقتدار پر براجمان رہتا ہے۔کبھی غلطی سے جیل میں چلا بھی جائے تو ہاتھ سے کامیابی کا نشان بنا کر بری ہو جاتا ہے۔عام چور اکثر کسی ذاتی ،مالی مجبوری کی وجہ چوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔لیکن ذہین چور چوری سے پہلے بڑی سرمایہ کاری کر کے چوری کے لئے واپسی کے راستے کے لئے حقدار قرار پاتا ہے۔امید ہے آپ سمجھ چکے ہوں گے عام چور اور ذہین چور کون لوگ ہوتے ہیں۔جب ایسا ہوتا ہے تو ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راج عروج پر نظر آتا ہے۔جیسا کہ ہمارے ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راج دھنداتا پھرتا ہے۔
آجکل ملک میں سیاسی جوڑ توڑ ماضی کا ایکشن ری پلے ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ سے پہلے گراونڈز اور ماحول بنایا جاتا ہے۔سیاسی جوڑ توڑ میں کرشمہ ساز کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اسکی جمع تفریق انیس بیس کا کوئی مقابلہ نہیں کر پا رہا۔جب سے پاکستان بنا ہے یہ کھیل جاری ہے۔ بس شکلیں بدلتی ہیں انداز نہیں۔زیادہ دور کی بات نہیں۔سال 2014 میں عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے گراونڈز اور ماحول بنایا گیا۔انکی سیاسی جماعت میں انتخابی گھوڑوں،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی شمولیت کا لا متناہی سلسلہ شروع کروا دیا گیا۔پھر ایک کو ہٹا کر دوسرے کو بیساکھیوں پر اقتدار سونپ دیا گیا۔جب اسکا کام ختم ہو گیا تو پھر وہی مشق دہرا کر اقتدار سے نکال دیا گیا۔اب وہی لوگ اپنی اپنی سیاسی صف بندی کر رہے ہیں۔سامنے نظر ہونے والے کھیل کے پیچھے کھیلنے والے اصل کھلاڑی رنگ روپ اور شکلیں بدل کر وہی ہیں۔اب بھی وہی سیاسی جوڑ توڑ جاری و ساری ہے جو کچھ سال پہلے تھا۔جو لوگ تھوک کے حساب سے تحریک انصاف کو اپنا مسکن بنا رہے تھے۔آج پیپلز پارٹی،جہانگیر ترین گروپ اور فاروڈز بلاکس میں اپنا سیاسی مسکن بنا رہے ہیں۔وہ کیا کہتے ہیں کہ نوے ٹائر پرانیاں ٹیوباں۔
کل ایک کو دیوار کے ساتھ اور اب دوسرے کو لگایا جارہا ہے۔اس سارے عمل میں صرف کرشمہ ساز قصور وار نہیں۔اس میں عدلیہ میڈیا بھی برابر کے شریک ہیں۔اور سب سے آگے سیاستدان ہیں۔اس گنگا میں عوام نے بھی خوب ہاتھ دوئے۔گویا اس حمام میں سارے برہنہ ہیں۔لہذہ کسی ایک فریق کے لئے حتمی رائے قائم کرنا بے وقت کی راگنی الاپنے کے مترادف ہے۔فریقین کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور سیاسی جماعتوں کو میثاق جمہوریت کے لئے از سر نو باہمی گفت و شنید کرکے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔جس میں بڑی جماعتوں تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن کو مل بیٹھنا ہوگا۔اس ضمن میں سب اپنے اپنے نظریہ اور سوچ پر قائم رہتے ہوئے بھی راستہ نکال سکتے ہیں۔وسیع تر قومی مفادات میں ایسا نہ کیا گیا۔تو جماعتوں کے درمیان موجود نفرت کے فاصلے سے کرشمہ ساز ، بیوروکریسی، عدلیہ اور میڈیا فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔جس سے ملک کی الٹی گنٹی ختم ہونے کا نام نہ لے گی۔ عوام عام انتخابات میں بازار سے فروٹ خریدنے کا فارمولا لگائیں۔ہر انسان فروٹ خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کوئی داغی فروٹ اسکے حصے میں نہ آئے۔اگر غلطی سے کوئی داغی فروٹ ڈال دیا جائے تو گھر جاکر دکاندار کو وہ سناتا ہے جو بتانے کی ضرورت نہیں۔اس حوالے سے فریقین کو عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے آتش فشاں کا احاطہ اور ادراک کرنا ہوگا۔جو نظر نہیں آرہا لیکن پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ملک سے اندھیر نگری چوپٹ راج کے خاتمے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے نہ تھی۔میری ذو معنی باتوں میں حق سچ چھپا ہوا ہے۔جو ہر ایک کے ذہن میں آتش فشاں کی طرح جگہ بنا رہا ہے۔اس کے پھٹنے سے پہلے دانشمندی اور معاملہ فہمی سے ٹھنڈا کرنا ہوگا۔بصورت دیگر آتش فشاں کے پھٹتے ہی ہمارے پڑوسی ممالک بھارت ،افغانستان اور ایران کاروائی ڈال دیں گے۔اس لئے ریاست کو کمزور کرنے کی سوچ ختم اور ٹھیک کرنے کی سوچ پیدا کرنا ہو گی۔تاکہ اندھیر نگری چوپٹ راج کی جگہ قانون کی حکمرانی کا دور دورہ شروع کیا جائے۔آج کل کالم لکھنے پر میرے دوستوں ،فیملی ممبرز د دیگر کے شدید تحفظات ہیں کہ خاموش رہو ورنہ دھر لئے جاو گے۔میں کہتا ہوں بھیا چپ کا روزہ آخر کب تک۔اندھیر نگری چوپٹ راج آخر کب تک؟ میں ڈھکے چھپے لفظوں بس کچھ نہ کچھ غبار اتار لیتا ہوں۔
تحریر میں کہاں سمٹ سکتے ہیں دلوں کے درد
بہلا رہا ہوں خود کو ان ہی کاغذوں کے ساتھ
[4:07 pm, 08/06/2023] Gn But Sb: