حرف قلندر…حافظ احمد خان
ahmadkhan9421@yahoo.com
کچھ سانحے انسانی زندگی میں المیہ بن جاتے ہیں،ان سانحات کے نقش انسانی ذہن کو مسموم و مجروح ہی نہیں کرتے بلکہ تاریخ کو مسخ بھی کر دیتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کو میں نے جب بھی یاد کیا اس نے نیا زخم دے کر رل ڈالا۔ ہم نے بڑوں کو اس کی یاد پر ہمیشہ آبدیدہ و نمدیدہ پایا۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ ایسا کیوں ہے؟ وہ کون سا درد ہے جو اس سانحے کی وجہ سے جاگ جاتاہے اور پھر تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا کہ گھر کے سب لوگ رونے لگ جاتے ہیں لیکن جب سانحہ 9 مئی رونم ہوا تب احساس ہوا کہ یہ زخم کیوں اتنی تکلیف دیتا ہے وہاں ہماری فوج اور عوام کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہو گیا تھا ، اپنوں کی غلطیوں سے دشمن نے خوب فائدہ اٹھایا اور پھر جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے۔ آج بھی شاید یہی سب کچھ دہرانے کی کوشش کی گئی لیکن دہرانے والوں کو یاد رہے یہ 1971نہیں ہے۔ آپ نے ایک ایٹمی پاکستان کی پاسبان فوج جس نے جنگیں لڑنے اور دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے، اسے للکارا ہے۔ نواپریل 2022 کو عمران خان کو ان کے سیاسی مخالفین نے آئینی طریقے سے اقتدار سے رخصت کر دیا لیکن خان صاحب جو کہ کبھی بھی ایک جمہوری مزاج کے آدمی نہیں ان کی کرکٹ کی زندگی بھی اس بات کی گواہ ہے۔ اس رخصتی کو ہضم نہ کر پائے اور ایوان کو چھوڑکر احتجاج پہ نکل کھڑے ہوئے اس احتجاجی مہم میں انہوں نے ایک تو فوری انتخابات کا مطالبہ کر دیا اور دوسرا اپنی رخصتی امریکی سازش قرار دے کر اپنی دفاعی افواج کو اس کا حصہ گرداننا شروع کر دیا میڈیا اور سیاست دانوں نے جب اس کا جواب دینا شروع کیا تو موصوف جوابا فرماتے کہ اگر یہ سازش کاحصہ نہیں تھے تو پھر انہوں نے اس سازش کو روکا کیوں نہیں کبھی اس سازش کا ذمہ دار مسلح افواج کے سربراہ کو اور کبھی اپنے خفیہ اداروں کو بتلایا اور اپنے سوشل میڈیا بریگیڈز کے ذریعے دفاعی اداروں کے خلاف بھر پور مہم چلواتے رہے، انہیں عجیب القابات سے نوازتے رہے لیکن اس دوران انہیں یہ کبھی توفیق نہ ہوئی کہ اپنی پونے چار سال کی کارکردگی پہ بھی بات کرتے۔ تیرہ ماہ تک جس بیانیے کو وہ آگے بڑھتے رہے اس کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ میری حکومت چھن جانے کی واحد ذمہ دار پاکستانی فوج یا اس کا سربراہ ہے یہ بیانیہ انہوں نے اپنے پیرو کارنوجوانوں کے ذہنوں میں خوب ڈالا اور پختہ بھی کیا۔ حتی کہ 9 مئی کو 60 ارب روپے کی کرپشن میں ہونے والی ان کی ایک دن کی گرفتاری کے موقع پر وہ لاوا پھٹ پڑا جسے وہ 13 ماہ سے سلگا رہے تھے۔ وہ جب اگلے دن عدالت عظمی میں پیش ہوئے تو جناب چیف جسٹس کے کہنے کے باوجود انہوں نے ان واقعات کی مذمت سے انکار کیا ، مصدقہ اطلاعات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے پارٹی ترجمانوں اور ذمہ داران کو بھی اس واقعہ کی مذمت سے سختی سے روکا۔ ان کے بعض سیاسی رفقائ نے اگر ان سے اختلاف کرنا چاہا بھی تو انہوں نے ان کے موقف کو سننے سے بھی انکار کر دیا۔اس پورے واقعے میں ایک ایسا منظر اتنا تکلیف دہ ہے کہ شاید کبھی میرے ذہن سے نہ نکل پائے، مردان کا ایک شدت جذبات میں کیپٹن کرنل شیر خان کے مجسمے کو پہلے اکھاڑتا ہے پھر اسے سر کے اوپر سے لا کر پوری قوت سے زمین پہ پٹخ دیتا ہے۔ ایسے میں اس مجسمے کا سر دھڑ سے الگ ہو کہ زمین پہ جا گرتا ہے اور دوسرا نوجوان سر کو فٹ بال بنا لیتا ہے۔ یہ مجسمہ کس کا ہے، وہ شخص کون تھا، اس کا کارنامہ کیا تھا، اس کے لیے ہماری قوم ہی نہیں ہمارے دشمن کے بھی کیا جذبات تھے شاید یہ بات اس نوجوان تو کیا اس پورے حملہ آور جتھے کو بھی معلوم نہ ہو۔ وجہ اس کی صرف ایک ہی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں شخصیات اور مفادات کی سیاست کرتی ہیں اگر وہ قومی سیاست کریں ، ملکی مسائل کو اجاگر کریں اور عوام کے سامنے ان کا حل مثبت انداز میں پیش کریںتو یہ حالات کبھی پیدا نہ ہوں۔9 مئی کو جس انداز میں عسکری تنصیبات اور شہدائ کی یادگاروں پر حملے کئے گئے وہ سب ایک ادارے پر نہیں ہمارے قومی وقار پر حملہ تھا۔ بد نصیبی یہ ہے کہ موصوف نیازی صاحب ابھی تک یہ فرما رہے ہیں کہ چونکہ رینجرز نے انہیں اٹھایا تھا اس لئے احتجاج کور کمانڈر ہا?س اور جی ایچ کیو کے سامنے ہی ہونا تھا۔ موصوف کے 9 مئی سے آج تک کے تمام بیانات اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ عسکری تنصیبات کے سامنے احتجاج کے لیے نوجوانوں کو جمع کرنے کی منصوبہ بندی پہلے ہی کر چکے تھے۔ اس حملے کے بعد ان کے راہ نما?ں کی لیک ہونے والی آڈیوز میں لوگوں کو جی ایچ کیو کی طرف جانے کا کہنا، کور کمانڈر ہا?س کے جلنے پہ خوشی کا اظہار کرنا اور عسکری قیادت کے بارے میں مغلظات ان کے پوشیدہ عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔اپنی سطحی سیاست کو چمکانے کے لیے کھیلے جانے والے اس کھیل نے جہاں ہمارے دشمن کو خوش کر دیا وہاں پاکستانی نوجوانوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا خوفناک راستہ بھی دکھا دیا۔ جمہوری معاشرے میں احتجاج کی طے شدہ حدود سے آگے بڑھ کر انہیں تشدد کے راستے کی طرف دھکیل دیا گیا، ان نوجوانوں کے اوپر چلنے والے مقدمات اور ان کی حراست نے نہ صرف ان کے حال اور مستقبل کو تباہ کر دیا ہے بلکہ ان کے خاندانوں کو عجیب ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ اپنے پیاروں کے غم میں نہ زندہ ہیں نہ مردہ اوپر سے طرفہ تماشا یہ ہے کہ موصوف آج بھی ٹویٹر اور فیس بک پہ بھاشن جاری رکھے ہوئے ہیں ، اس بھاشن نے پہلے ہی قوم کے سینکڑوں نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ اس شخص کی گفتگو پر پابندی لگانا ہو گی تا کہ مزید لوگوں کی زندگیاں تباہ ہونے سے بچ جائیں اس معاملے کا ایک اور عجیب وغریب پہلو سامنے آرہا ہے وہ امریکی جنہوں نے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں آج جب ریاست کی چولیں ہلانے والوں کے خلاف قانون کا شکنجہ کسا جا رہا ہے تو انہیں بھی انسانی حقوق یاد آرہے ہیں۔ آج ان مذموم واقعات کے مرکزی کرداروں کو سزا دینا ہو گی اور وہ نوجوان جو اس بہلاوے میں بہہ گئے ان کی کم سے کم سزا دے کر قومی دھارے میں واپس لانا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں اور صحافتی اداروںکو خود اپنے لیے جامع ضابطہ اخلاق تشکیل دینا ہو گا تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا سد باب ہو سکے۔