میں بھی اکثر خواتین کی طرح اپنے شوہرِ کَرار و شترِ بے مہار کی سَرِ دَست پہلی اور آخری بیوی ہوں۔ میرے والدین نے جس کھونٹی سے باندھ دیا، اْسی پر ہی ٹیڑھے میڑھے حروف میں اپنے نصیب کا لکھا ہوا کھا پی رہی ہوں۔ یہاں کھانے پینے کا مطلب اشیائے خورد و نوش نہیں بلکہ اِس سے شوہر کی ڈانٹ کھانا اور اپنا غصہ پینا مراد ہے۔ شادی سے پہلے والدین کو اپنی پسند اِس لئے نہیں بتائی تھی کہ دنیا کے مردوں کی شکل و صورت، رنگ و نسل، قد کاٹھ اور عادات و خصائل الگ الگ سہی مگر بیویوں کے بارے میں اکثریت کی سوچ بے کَم و کاست ایک جیسی ہی ہو تو کیا ساجھا یا گاما، کیا چوہدری کیا رانا، جو مل گیا، اسے 'قبول ہے' کہہ دو اور زندگی جیسے تیسے گزر سکتی ہے، گزارتے جاؤ… بس اللہ اللہ خَیر سَلّا...!!
خاوند پر شک اِس لئے نہیں کرتی کہ میں اپنے دکھوں میں ایک روگ کا مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتی۔ میری دانست میں، بیوی کے وقار کا تقاضا ہے کہ مشکلات کو جتنا محدود رکھ کر سمیٹا جائے، اتنا ہی اْس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔
امریکی دانشور جم روہن نے کہا تھا، "یا تو آپ دن کو آپ ہیں یا پھر دن آپ کو چلاتا ہے"۔ جم کا کہنا سر آنکھوں پر، مگر پاکستانی شوہر نہ دن کو چلاتا ہے نہ ہی دن اْس کو چلا سکتا ہے بلکہ وہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں کی ڈکٹیشن یا اشارہء ابرو پر چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی زندگی میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتی ہوں، یہ 'لائی لگ' فوراً رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے اور وہ اِس ہنر میں مزید طاق بھی ہوتا جا رہا ہے.کبھی تو سدھرے گا، اِس آس میں برسہا برس گزر گئے ہیں۔ منتظر ہوں، کب بچے بڑے ہوں تاکہ اْن سے اِس کی ڈھیلی 'ڈھبریاں' ٹائٹ کروا سکوں۔
کم و بیش ہر شوہر بیوی کو موٹی عقل کی مالکہ کہتا ہے اور بعض اوقات اْسے 'کٹے کی امی' سے تشبیہ دیتا ہے۔ سادہ سی بات ہے اگر بیوی عقل کی موٹی ہے تو پھر وہ خود بھی تو باریک عقل کا مالک ہوا ناں!! اتنی باریک جو کسی کو نظر ہی نہیں آتی۔ کیا کسی بیوی نے لمبائی چوڑائی میں برابر خاوند کو بھینسا، سنڈھا یا کسی اور نام سے پکارا؟ نہیں، بالکل بھی نہیں…۔ کیونکہ بیوی تو برداشت اور استقامت کا پہاڑ ہوتی ہے۔ ویسے بھی کچن اور صفائی کے کاموں کے علاوہ دو تین بچوں کی موجودگی میں بیوی خاک ایکسرسائز یا واک کر سکتی ہیں۔ پھر ساس اور نندوں کے طعنے نشتر کی طرح جگر چھلنی کرتے ہیں۔ تمام خاوند شکر کریں کہ اْن کی نندیں نہیں ہوتیں!!
اپنے دور کے مشہور انگریزی ڈرامے ڈیری بیری (میاں بیوی) کا مرکزی خیال یہ ہے کہ میاں لاپرواہی اور کام چوری کے باوجود خود کو عقلِ کل اور حاکم جبکہ بیوی کو کم عقل اور محکوم سمجھتا ہے جبکہ فرض شناس اور پرعزم بیوی کھلے ظرف اور ضبط سے گھر کو سنبھالنے، بچانے اور سنوارنے میں جتی رہتی ہے۔
شادی سے پہلے اور شادی کے شروع کے دنوں میں آسمان سے تارے توڑنے کے دعوے کرنے والا سستی اور کاہلی کا مارا شوہر صحن میں بیوی کے ہاتھوں سے لگے پودینے یا دھنیے کی پتیاں تو توڑ نہیں سکتا، مگر ماں بہن کے کہنے پر بیوی کی ہڈیاں پسلیاں ضرور توڑ دیتا ہے۔ اور پھر علاج کے لئے ہسپتال میں خود بھی خوار ہو رہا ہوتا ہے۔ کس و ناکس کو یہی بتاتا ہے، "بے چاری چکر کھا کر سیڑھیوں سے گر گئی تھی"۔ نتائج کا اْسے تب پتہ چلتا ہے جب اْس کے برادرِنسبتی (سالے) حقیقتِ حال جان کر اْس کی ٹانگیں اور بازو توڑ کر حساب کتاب برابر کرتے ہیں اور پھر اْسی ہسپتال میں ساتھ والے بیڈ پر لٹا کر اْس کی ٹانگوں اور بازوؤں پر چڑھے پلستر کی طرف اشارہ کرکے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے بہنوئی بغیر چکر کھائے ہی چھت سے گر گئے تھے۔ وفا شعار بیوی آنکھوں سے ٹپ ٹپ موٹے موٹے آنسو بہا کر پوچھتی ہے، " اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟"
دراصل اِنہی سالوں کے خوف کی وجہ سے بہت سے 'جیجاز' دوسری یا تیسری شادی کی حسرت دلِ ناتواں میں بسائے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور سالوں کی ایک ہی ہلکی پھلکی یا 'دَم دار' سرجیکل سٹرائک کے بعد تا دمِ آخر، بیوی پر تشدد سے بھی باز رہتے ہیں۔ اگر سالے نہ ہوتے تو پاکستان میں بھی طلاق یا دوسری شادی کی شرح افراطِ زر کی مانند بلند ترین سطح پر پہنچی ہوتی۔ میری ایک 'ست بھرائی' سہیلی کے میاں نے ایک دفعہ اْس سے اپنی دوسری شادی کی بات کی تو اْس نے پرسکون انداز میں فقط اتنا ہی کہا تھا، "معاملہ اتنا مت بڑھا! بیوی سے بیوہ ہونے میں بھلا وقت ہی کتنا لگتا ہے؟" بے چارہ شاعر یا ادیب نہ ہونے کے باوجود ایک مصرعے کی تاب بھی نہ لا سکا۔ زندگی کس کو پیاری نہیں ہے بھائی...!!
میرا مجازی خدا لکھتا ہے، "یار! کسی اور کی خوبرو بیوی سگریٹ پیتی ہوئی کتنی اچھی لگتی ہے"۔ اپنی بیوی تو گھر میں اْسے چائے، جوس، لسی یا دودھ سوڈا پیتی بھی زہر لگتی ہے۔ میرے خاوند نے ایک دلچسپ مگر احمقانہ سوال کیا ہے۔ کہتا ہے، " ایک کنوارہ اپنی محبوبہ کی محبت میں ناکامی کے بعد خود کشی کرکے اپنی جان تو گنوا دیتا ہے مگر دل کے عارضے سے فوت نہیں ہوتا۔ یہ دکھ اْس کے نصیب میں شادی کے بعد ہی کیوں لکھا جاتا ہے؟" بڑا سادہ سا جواب ہے کہ شادی کے بعد جو خاوند بیوی کی بجائے تتلیوں کو دل میں جگہ دے کر ہر وقت سائے کی طرح اْن کے پیچھے بھاگتا ریتا ہو اور اْٹھتے بیٹھتے چار شادیوں کی خواہش دل میں بسائے رکھتا ہو تو اس کے کان تو درد نہیں کریں گے، دل کا دورہ ہی پڑے گا۔ آخر بیوی سے محبت کرنے والے خاوندوں اور شادی شدہ مذہبی پیشواؤں کو ہارٹ اٹیک کیوں نہیں ہوتا؟ میڈیکل سائنس کی بجائے شوہر خود غور کرے یا اْس کی اماں سوچے، جو ہر وقت بیٹے کو الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی رہتی ہے۔ بیٹے کی زندگی ختم ہو جاتی ہے مگر اْس کے پٹیاں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔
میرا شوہر اپنے دوست اور اْس کی بیوی کے حوالے سے لکھتا ہے، "ظالم علیحدہ کمرے میں شفٹ ہو گئی ہے۔ ہماری ملاقاتیں بچوں کے ساتھ کھانے کی میز پر ہی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو وہ کھانا بھی میرے کمرے میں بھجوا دیتی ہے۔ یوں وہ اپنے احساسِ برتری کے جنون کو کم نہیں ہونے دیتی"… جواب حاضر ہے! میرا شوہر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیا اْس کا دوست اچھا شریکِ سفر کہلائے جانے کا مستحق بھی ہے؟ وہ شکر کرے کہ گھر میں ایک سجا سجایا کمرہ اسے دیا گیا ہے۔ تمام اشیائے ضروریہ بن مانگے اْس کو میسر ہیں۔ اگر اْس کی ملکیت میں آدھ درجن قیمتی پلاٹ، تین عدد کوٹھیاں اور دو نئے ماڈل کی گاڑیاں نہ ہوتیں اور وہ ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ پنشن وصول نہ کر رہا ہوتا تو اِس وقت وہ گھر کی ڈیوڑھی میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پر لیٹا ہوتا یا کسی مزار پر جھاڑو دینے کے بعد بھنگ پی رہا ہوتا۔ ویسے بھی خاوند کی صَلاحِیت اور اِستِعداد کی جْزئِیات کو بیوی سے زیادہ اور کون جان سکتا ہے؟؟