پسِ آئینہ انسانی سرمائے کی ترقی کو وسیع پیمانے پر معاشی ترقی اور سماجی بہبود کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ماہر اقتصادیات جولین سائمن کے مطابق،’’حتمی وسیلہ انسانی ذہن ہے، جو جدت اور معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے تعلیم اور ہنر میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ سائمن کا ماننا ہے کہ آبادی جتنی زیادہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہوگی، اس کی معاشی ترقی اور مسائل حل کرنے کی صلاحیتیں اتنی ہی زیادہ ہوں گی‘‘۔
ہیومن کیپٹل ڈویلپمنٹ (انسانی سرمائے کی ترقی ) کے لئے ملک میں شعبہ تعلیم، صحت ، ہنر اور صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کر کے اس کی مجموعی پیداواری صلاحیت، اقتصادی ترقی اور مجموعی طور پر بہبود کو بڑھایا جا سکے۔ یہ عمل پائیدار ترقی ، مسابقت اور شہریوں کے لیے بہتر معیار زندگی کے حصول کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں معاشی چیلنجوں پر قابو پانے اور پائیدار ترقی کے حصول کے لیے انسانی سرمائے میں اضافہ بہت ضروری ہے۔ عالمی بینک اور یونیسیف کی رپورٹوں میں ملک کے ہیومن کیپٹل انڈیکس (ایچ سی آئی) کو بڑھانے کے لیے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال میں خاطر خواہ بہتری کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اگر ہم پاکستان کے ہیومن کیپٹل ڈویلپمنٹ کی بات کریں پتہ چلتا ہے کہ ہے کہ پاکستان کا ہیومن کیپیٹل انڈیکس کی ویلیو ہ 0.41 ہے جو دونوں لحاظ سے یعنی ایبسلیوٹ ویلیوز اور ریلٹو ویلیوز دونوں لحاظ سے ہی کم ہے۔ حتیٰ کہ جنوبی ایشیا کی اوسط 0.48 ، بنگلہ دیش 0.46 اور نیپال 0.49 ہے۔ ملک پاکستان کا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے تو ہمارا موازنہ تو نہیں بنتا لیکن ہم بہت سے ترقی پزیر ملکوں سے بھی انسانی سرمائے کی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان میں ہر پیدا ہونے والا بچہ صرف 41فیصد پوٹینشل (استعداد ) کا حامل ہوگا اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اپنے ممکنہ جی ڈی پی کاتقریباَ60 فیصد کے قریب کھو رہا ہے۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کیمطابق تعلیم، صحت اور افرادی قوت کی مہارت جیسے شعبوں میں پاکستان کا نمبر نچلے درجے پر ہونے کی وجہ سے ملک کی اقتصادی ترقی اور ترقی کے امکانات کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔
پاکستان ہومن کیپٹل ڈویلپمنٹ میں انتہائی نچلے درجے پر کیوں پہنچ چکا ہے ؟کون سے ایسے عوامل ہیں جو اس کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کسی بھی ملک کے انسانی سرمائے کی ترقی میں دو عوامل انتہائی اہم ہیں جن میں پہلا میعاری تعلیم اور دوسرا میعاری صحت کی سہولیات کی فراہمی جبکہ اس کے ساتھ کسی بھی شہری کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کا دستیاب ہونا بھی لازمی جزو ہیں۔ ہمارے ملک 26تقریبا ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں یہ وہ بچے ہیں جو اس ملک کا مستقبل ہیں۔ دوسری طرف جو بچے زیر تعلیم ہیں انہیں یکساں معیار تعلیم سے میسر نہیں ہے۔اس وقت ملک میں چارطرح کا نظام تعلیم موجود ہیجس میں گورنمنٹ ، پرائیویٹ، الیٹ سکول سسٹم یعنی انگلش میڈیم سکول اور دینی مدارس شامل ہے۔سرکاری سکولوں میں تعلیم کا موجودہ نظام ہمیں وہ نتائج نہیں دے رہاجو ہیومن کیپٹل کو بہتری کیطرف لیجانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ پاکستان بھر میں سرکاری و پرائیویٹ سکولوں میں لاکھ 13ہزار 4سو اٹھارہ ہر سطح کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد 5کروڑ 48لاکھ 70ہزار سے زائد ہے ان میں سے تقریبا 53فیصد طلباء سرکاری تعلیمی اداروں میں جبکہ 44فیصد تعداد پرائیویٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ہے۔ پاکستان اکنامک سروے کیمطابق ابھی بھی بڑی تعداد سرکاری سکولوں میں پڑھ رہی ہے۔ سرکاری سکولوں کو اپ گریڈ کرنے ، اساتذہ کے لئے ٹیچر ٹریننگ پرواگرام کے تحت تریبت دینے کیساتھ ساتھ معیاری تعلیم کی فراہمی کو ماڈرن طرز پر استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسرے نمبر پر پرائیویٹ سکولز ہیں جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہیں۔ موجودہ دور میں مڈل کلاس اور لیور مڈل کلاس کے زیادہ تر بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں معاشرے کا زیادہ تر بوجھ مڈل کلاس پر ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار بتدریج گرنے کیوجہ سے والدین پر بھاری فیسوں کا ایک اضافی بوجھ ہے جو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ان تمام تعلیمی اداروں میں خاص چیک اینڈ بیلنس نہیں جسکی وجہ سے پرائمری نظام تعلیم انکے اپنے تجربے کی بنیاد پر چل رہا ہے ان تعلیمی اداروں میں معاشرے کے متوسط طبقے سے وابسطہ افراد کے بچوں کو فری تعلیم فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھانا چاہیے اور معاشرے میں یتیم بچوں کو ہر سطح پر اور ہر تعلیمی لیول پر فری تعلیم دینی چاہیے تاکہ پاکستان اپنے مستقبل کو ایک روشن کل دے سکے۔ اسی طرح تیسرا اس طرح پاکستان میں تقریبا 3ملین بچے مدرسوں میں زیر تعلیم ہیں جہاں انہیں فارمل تعلیم معیار کے مطابق نہیں دی جاتی جسکی وجہ سے مدرسوں میں پڑھنے والے بچے باقی بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں حکومت وقت کو چاہیے کہ کم از کم پرائمری تعلیم تک کا نظام ان مدرسوں میں فوری نافذ کردے تو ملکی سطح پر باقی تمام تعلیمی اداروں سے مطابقت رکھتا ہو۔ ملک میں چوتھا نظام تعلیم الیٹ سکولز ہیں جہاں زیادہ تر انگلش میڈیم ہے کہ تحت تعلیم دی جاتی ہے ان سکولز میں زیادہ تر ملک کی الیٹ کلاس جن میں سیاستدان، قانون دان ، کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس کے بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچے معاشرے میں دیگر نظام تعلیم کے تحت پڑھنے والے بچوں سے تعلیمی اور دیگر شعبوں میں بہت آگے چلے جاتے ہیں۔ ان الیٹ سکولز میں کم از کم 15سے 20فیصد کوٹہ مختص کر دینا چاہیے کہ پاکستان بھر کے سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ذہین اور ہونہار بچوں کو ایک واضح کردہ طریقہ کار کے تحت فری تعلیم دی جائے یا کم از کم ان کا تعلیمی وظیفہ مقرر کر دیا جائے تاکہ معاشرے کے ہر طبقے کے بچوں کو ہر سطح پر تعلیم حاصل کر نے کے مواقع میسر ہوں۔
ملک میں سب سے بڑا چیلنج اس وقت آئوٹ آف سکول چلڈرن کو سکولوں میں لانا ہے۔ دینا میں سب سے بہترین حکمت عملی اس طریقہ کار میں اپنائی جا رہی ہے وہ ہے کہ زیادہ تر غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے والدین اپنے بچوں کو غربت اور افلاس کی وجہ سے سکولوں میں نہیں بھیج رہے۔ مدارس میں بھی زیر تعلیم بچوں میں ایک بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جنہیں پڑھائی کیساتھ ساتھ کھانا اور رہائش فری دستیاب ہے۔ ملکی سطح پر بچوں کو سکول میں لانے کے لئے ایک کا دو وقت کا کھانا فری فراہم کیا جائے اور بالخصوص بچیوں کو سکول میں فری کھانے کیساتھ وظیفہ دینا چاہیے تاکہ معاشرے میں عدم مساوات ختم ہو اور خواتین معاشرے کو ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ بنانے میں اپنا کرادار کر سکیں۔ سرکار اس کام میں ملک میں موجود مخیر حضرات و ملکی سطح پر کام کرنے والی این جی اوز اور دیگر فلاحی اداروں کیساتھ ملکر اس منصوبے پر کام کیا جا سکتا ہے اور ایک منظم منصوبہ بندی سے اس مشن کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے ۔ بنگلہ دیش اس منصوبے کے تحت خاطر خواہ کامیابی حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان ہومن کیپٹل ڈویلپمنٹ کو مزید بہتر بنانے کیلئے پاکستان اپنے بجٹ کا 1.7فیصد خرچ کر رہا ہے جبکہ تعلیمی نظام میں بہتر بنانے کے لئے بجٹ کا چار فیصد مختص کرنا چاہیے۔ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر ملکی بجٹ کا کم از کم 20 فیصد تک تعلیم پرمختص کر دیا جائے تو نظام تعلیم بہت اوپر اْٹھ سکتا ہے۔ پاکستان میں پرائمری تعلیم پر خرچ ہونے والا بجٹ ہائی ایجوکیشن کے مقابلے میں بہت کم ہے جو کہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ہم پرائمری تک بچوں کو میعاری تعلیم دلوانے میں پیچھے ہیں۔ ہمیں پرائمری اور بنیادی تعلیم پر زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک میں اس وقت 3.3ملین بچے کم عمری میں اپنی بھوک اور افلاس کو مٹانے کیلئے مزدوری کر رہے ہیں جو بچپن میں ہی تعلیم اچھی تعلیم اور صحت سے محروم کردیے گئے ہیں ان بچوں کو سکول میں لانے کے لئے تعلیم کیساتھ ساتھ ایک ان کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے بہتر و ظیفے دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ انسانی سرمائے کی ترقی کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 11.3 کہتا ہے کہ "چودہ سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی فیکٹری یا کان یا کسی اور خطرناک ملازمت میں نہیں لگایا جائے گا۔" اسی طرح کے تحفظات آئین کے آرٹیکل 37 میں فراہم کیے گئے ہیں۔ چائلڈ لیبر قوانین کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے یہ خاص بچے جنہیں بنیادی حق سے محروم کیا گیا ہے انہیں ان کا حق دلایا جا سکے۔
ہیومن کیپٹل ڈویلپمنٹ میں جہاں ملک میں کام کرنے والے مرد حضرات کی شرح 80فیصد سے زائد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 20فیصد تک ہے اگر پاکستان میں اس شرح کو چائنہ اور امریکہ کی طرز پر مردوں کی شرح کے برابر لے جایا جائے یا موجودہ خواتین کی تعداد کم از کم 40فیصد تک بڑھا دی جائے تو ملکی جی ڈی پی میں تقریباَ 16 سے 32فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں انسانی سرمائے کی ترقی میں سب سے بنیادی مراکز صحت ، دہی مراکز ، ٹی ایچ کیو اور ڈی ایچ کیو کی سطح پر فراہم کی جانی والی سہولیات میں بہتری لانے کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات اْٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں گزشتہ سال کے اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی کل تعداد تقریباً 3لاکھ 86ہزر سے زائد ہے جس میں پانچ سال سے کم عمر کی شرح اموات فی ایک ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں 61شرح اموات ہیں جبکہ نوزائیدہ اموات کی شرح فی 1,000 زندہ پیدا ہونے والوں میں 39 اموات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیہیں کہ پانچ سال سے کم عمر کی اموات کا ایک نمایاں تناسب زندگی کے پہلے مہینے کے اندر ہوتا ہے۔
یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کی صحت اور بقا کو بہتر بنانے میں جاری چیلنجوں کو اجاگر کرتے ہیں، ماں اور بچے صحت کی دیکھ بھال کی بہتر خدمات، بہتر غذائیت، اور حفاظتی ٹیکوں کی کوریج میں اضافے کے ذریعے بہت سی اموات کو روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہیومن کیپٹل میں بہتری ترقی لانے کے لئے تعلیم ، صحت اور ہنرمند بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اْٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو دنیا کے دیگر ممالک کی صف اول میں لایا جا سکے۔