مزار برائے فروخت اور بجلی گنڈے سے چلائیں۔

یہ اپنی نویت کا پہلا اشتہار تھا جو مجھے ایک بزرگ ساتھی نے بجھوایا۔ دوست نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ سوسائٹی ہماری بھی شان و حشمت ہے. میں پڑھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ کیا چاہتے ہیں؟۔ امید ہے قارئین کو بھی کبھی  یہ خیال نہیں آیا ہو گا کہ مزار بھی کبھی کوئی فروخت کرتا ہے۔ زمانہ طالبعلمی میں سن رکھا تھا کہ کراچی میں بہت سے اہم مقامات کے تھانے'' فروخت'' ہوتے ہیں۔ نادان تھے سمجھ نہ سکے کہ کیا یہ ایسے ہوتا ہوگا۔ کیسے فروخت ہوتے ہیں؟  پھر معلوم ہوا کہ کچھ ملکی ادارے ایسے بھی ہیں جن کے ملازمین تنخواہیں نہیں لیتے اس لیے کہ ان کی''  اوپر کی آمدنی'' بہت ہوتی ہے۔ یہ وہ ملازمین ہیں جو فائل پر پہیہ لگا? بغیر فائلوں کو چلنے نہیں دیتے۔حلال حرام میں فرق نہیں رکھتے۔ اسی طرح مزار فروخت کاپڑھ کر یقین نہیں آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے؟۔ یہ درست ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں جہاں کتے اور مردار جانور کا گوشت بھی فروخت کر دیا جاتا ہے، یہاں اکثر چیزوں میں ملاوٹ ہے۔ یہاں عہدے سفارشوں سے ملتے ہیں۔یہان سیاسی لیڈر سیاسی پارٹیاں بنتی نہیں بنائی جاتیں ہیں۔ ان میں ہوا بھری اور نکالی جاتی ہے۔قبرستان میں قبر کی جگہ رشوت سفارش سے ملتی ہے۔ لہذا اس دور میں ہر چیز ہر بات ممکن ہے یہ مکان نہیں دوکان کارخانہ نہیں مزار برائے فروخت کا اشتہار ہے۔جہاں ضمیر بگتی ہو۔وہاں  حیران اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہر چیز ممکن ہے۔ پہلے اپ اس اشتہار کو پڑھ لیں۔ پھر مزید بات کرتے ہیں۔ مزار برائے فروخت۔ معقول تعداد میں مریدین اس مزار سے وابستہ ہیں۔ عام نذرانوں کے علاوہ ہر پندرہویں کو باقاعدہ محفل سماع بھی ہوتی ہے جس میں مناسب چندہ اکٹھا ہو جاتا ہے۔ شاندار لوکیشن پر یہ مزار ہے۔،یہ برلب سڑک ہے۔ یہاں مریدوں کے علاوہ راہ چلتے لوگ اور مسافر بھی اپنی مرادیں پوری کرانے پر چندہ ڈالتے رہتے ہیں۔ قریب کے تقریبا 14،13 گاؤں میں صاحب مزار کی اچھی مشہوری ہے کہ یہاں جھاڑوے  چڑھانے اور کالے بکرے کی منت ماننے سے مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ کچھ مزید محنت سے دربار کے کام میں ترقی آ سکتی ہے۔ دربار میں کسی قسم کا کوئی فالٹ وغیرہ نہیں ہے۔ مالک صرف اس لیے بیچ رہا ہے کہ وہ یہاں سے چھوڑ کر کسی پوش علاقے میں کھلی جگہ پر نیا دربار اپنی آنے والی نسلوں کے بہترمستقبل کے لئے بنانا چاہتے ہیں، سنجیدہ لوگ رابطہ کریں۔ ڈیل پونڈ ڈالر اور ریال میں ممکن ہے۔ 

ریٹائرڈ راشی سرکاری ملازمین کے لئے نادر موقعہ ہے۔ یاد رہے آمدن پر انکم ٹیکس معاف ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے والوں کیلیے نادر موقع ہے۔ یہ تھی اس مزار کی معلومات۔لگتا ہے مزار کے مالکان کے درمیان فیملی تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے۔ بچے جوان ہو چکے ہیں جو اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ لہذا فروخت کے نام پر انہیں پتہ چل جائے گا کہ کتنی قیمت ہے اس مزار کی بابا کرمو کو بھی یہ ویٹس اپ کیا تھا۔ کال کر کے پوچھا کہ کیا مزار فروخت کرنے کی خبر میں کوئی حقیقت ہے کہا کیوں نہیں۔کیا کبھی سوچا تھا کہ تعلیمی ادارے انڈسٹری کی شکل اختیار کر لینگے۔ کیا یتیم خانے اور مذہبی تعلیمی ادارے کمرشل طریقے سے چلانے جائیں گے۔  قومی زبان اردو ہے۔ مگر بولتے لکھتے انگریزی میں ہیں۔ محکمے سے ریٹائر ہوتے ہی پھر کوئی نوکری پکڑ لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ قبر تک جاری رکھتے ہیں یہ سب کچھ اس دیس میں تو ہورہا ہے۔ جو حالت جو سوچ جو ایمان ہمارا ہے اس لئے ملک میں کالج یونیورسٹی کم ہیں مزار زیادہ ہیں، فقیر زیادہ ہیں کہا اگر میرا بس چلے تو ان مزاروں پر پابندی لگا دیتا مانگنے والے گداگروں پر پابندی لگا دیتا، ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری کی تلاش کرنے والوں کو مزاروں  پر بٹھاتا مالک ہوتا تو لکھتا یہ مزار اس ملک کے ریٹائر چیف جسٹس، ریٹائرڈ  جنرلوں اور بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کے لیے بزنس کا نادر موقع ہے۔ اس ملک کے تمام سزا یافتہ فیراڈے چیٹر میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ تمام نام سیخا راز میں رکھے جائیں گے۔ پہلے آئے پہلے پائیے کی بنیاد پر فروخت کیا جائے گا۔ بابا کرمو نے کہا میرے سمیت کسی کو یقین نہیں کہ ہم نے قبر میں خالی ہاتھ جائیں گے۔ یہاں کوئی بندی بندہ رشوت دینے اور لینے کو گناہ نہیں سمجھتا۔ میں نے کہا بابا جی میں آپ کی اس بات پر اتفاق نہیں کرتا۔ پھر میں نے سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا واقعہ سنایا۔ کہ اچھے لوگ ابھی ہیں،کہا ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری کی مگر اب راولپنڈی میں وکالت کرنے کا آفس بنا کر وکالت کا پروگرام بنالیا ہے، افس میں انہیں بجلی کی ضرورت پڑی۔کسی نے کہا بہتر ہے آپ ہماری طرح کنڈا لگا لیں ،مفت کی بجلی استعمال کریں،کہا اس پر میں نہ مانا۔ کنکشن لگوانے کے لیے واپڈا دفتر گیا۔ ایس ڈی او سے ملا، سر میرے دفتر میں بجلی کا میٹر لگا دیں۔ جواب دیا آپ پہلے ٹرانسفارمر لگوائیں۔ کمرشل جگہ ہے،اگر بار والے رقم جمع کروائیں تو ہم ٹرانسفارمر لگا دیں گے پھر آپ کو بھی کنکشن مل جائے گا۔میں نے کہا باڑہ بازار ، راجہ بازار میں کیا کمرشل جگہیں نہیں ہیں ؟ وہاں تو آپ نے ٹرانسفارمر بغیر رقم جمع کئے لگا رکھے ہیں۔ یہاں کیوں نہیں۔ یہ بھی بتایا جناب وہاں تو کچھ لوگ کنڈے لگا کر اپنے دفاتر کو روشن کر چکے ہیں۔ کمرشل کنٹین اور کمرشل  فوٹو سٹیٹ مشینیں بھی چوری کی بجلی سے چل رہی ہیں۔ آئرکنڈیشن سے بھی استفادہ کیا جا رہا ہے۔کہنے لگے مجھے پتہ نہیں ! میں نے کہا آپ کے دفتر سے آدھے کلو میٹر پر یہ بجلی چوری سے کام چل رہا ھے اور آپ کو پتہ نہیں ؟ کہنے لگے میں یہاں نیا نیا آیا ھوں۔ یہ سن کر فائل واپس لے آیا ، چالیس پینتالیس برس پہلے بھی میں دفتر بجلی لگوانے گیا تھا اسوقت بھی یہی حالات یہی ڈرامے تھے۔ وکیل نے مشورہ دیا کہا " سر ابھی 25000 روپے دیں آپ کا میٹر لگ جائے گا۔" اس آفر پر سوچا۔ مگر ایسا کرنے پر میرا دل نہ مانا۔ سوچ لیا " رشوت دینی ہے , نہ کنڈا لگانا  ہے "درمیانی راستہ نکالنا ہے۔ اسی سوچ میں گم ہو کر راولپنڈی، کالج روڈ چل پڑا۔ ایک دوکان دار سے 25000 روپے کا سولر سسٹم خرید کر اپنے دفتر  " میر لا ایسوسی ایٹ " میں لگا لیا۔ اس طرح راولپنڈی کچہری میں آج میرا پہلا دفتر ہے جو سولر سسٹم پر چل رہا ہے۔ پوچھا کیا سولر پلیٹ چوری ہونے کا خطرہ نہیں۔ بتایا کہ صبح جب آفس کھولتے ہیں تو سولر پلیٹ سورج کی روشنی میں رکھ دیتے ہیں شام جب آفس بند کرتے ہیں تو انہیں اٹھا کر افس میںرکھ دیتے ہیں۔ جج صاحب نے ثابت کر دیا کہ بغیر رشوت  بغیر کنڈا لگائے کے آفس روشن ہو سکتا ہے اگر اچھا شہری بننا  چائے ہیں تو آپ بن سکتے ہیں۔ قدرت بھی اپنے نیک بندوں کو گناہوں سے بجانے میں مدد کرتی ہے۔جج صاحب نے ایسا کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔اب باقی وکلا جنھوں نے کنڈے لگارکھے ہیں وہ خود بھی سولر لگائیں اور اپنے اردگرد جنھوں نے کنڈے لگا کر مشینیں اور اے سی لگا رکھا رکھیں ہیں بار کے نمائندے انکی فوری بجلی کاٹ دیں۔ یہ کام واپڈا کے کرنے کے ہیں۔ بار ان کے ساتھ تعاون کرے۔امید ہے اس غیر قانونی طریقے سے لی گئی بجلی پر بار اور واپڈا حکام فوری ایکشن لیں گے !!اچھی مثال قائم کرنے پر بار میں میر صاحب کے اعزاز میں فنکشن کریں گے تانکہ دوسرے وکلا بھی اسی سوچ پر چلیں۔ واپڈا حکام بجلی چوری پر بھاری جرمانے عائد کرے۔  چوری ہونے والی بجلی کے بلز عام شہریوں سے لینا بند کریں ۔چوری کو پکڑنے سے پہلے علاقے کی لائن مین کو پکڑیں۔ بجلی چوری کی سزا چوری نہ کرنے والوں کو نہ دی جائے''کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے''

ای پیپر دی نیشن