سید علی جعفر زیدی، سید مجاہد علی اورکاروان حوا کی باتیں

 دو پر عزم اور عالمی سطح پر اپنے اثرات مرتب کرنیوالے سید صاحبان نے گزشتہ دنوں اپنی میٹھی اور فکر انگیز گفتگو سے لاہوریوں کے من کومئی جون کی گرم فضا میں بھی بہت خوشی سے نوازا۔ سید علی جعفر زیدی اور سید مجاہد علی۔ دونو ں نے عملی زندگی صحافت سے شروع کی اور قلم کی لکیر گلوب کے دور پا ر کے حصوں تک لے گئے۔باہر جنگل اندر آگ۔ جیسی بہت پڑھی جانیوالی کتاب کے خالق علی جعفر زیدی نے وطن سے دور جا کر بسنے سے پہلے پاکستان کی سیاسی صحافتی اور ادبی زندگی میں ہلچل مچائے رکھی۔پیپلز پارٹی کی بنت میں ہفت روزہ نصرت کا ایک بڑا کردار تھا اور علی جعفر زیدی نصرت کے ایڈیٹر تھے۔ پھر جب پیپلزپارٹی میں فصلی بٹیروں کی آوازیں پارٹی کی اصل آواز پر غالب آ گئیں توعلی جعفر زیدی جیسے دانشور پیچھے ہٹ گئے۔
پاکستان کے ممتاز انجینئر اور عالمی سطح کی توانائی کنسلٹنسی کمپنی کے مالک دانشور حسن جعفر زیدی اور مشہور ادیبہ در نجف زیدی کے یہ قد آوربھائی پچھلی بار لاہور آئے تھے تو مزدور محاز کے سینئر لیڈر محمد اقبال ظفر کے ہاں آزاد ویلفئر فا?نڈیشن کی فکری نشست میں انہوں نے حالات اور مستقبل کی جو تصویر کشی کی تھی وہ سچ ثابت ہوئی۔ اس بار علی جعفر زیدی نے وطن واپسی پر کئی فورموں پر ماضی کے احباب سے ملاقاتیں کیں۔پی ٹی وی بھی گئے۔عمارجعفری سابق ڈی جی ایف آئی اے فیملی فرینڈ جواس وقت pakistan of digitalisation پر کام کر رہے ہیں کوجوانوں پرانویسٹ کرنے پرزور دیا۔ اسلام آباد میں سینئر صحافی اثر چوہان سے ملاقات میں گزشتہ صدی کی وہ یادیں تازہ کیں جب سابق گورنر امیر محمد خان کے دور میں بی اے کا ڈگری کورس دو کی بجائے تین سال کا نوٹیفائی ہوا تو معراج محمد خان سمیت اس دور کے جواں ہمت طالب علموں کوکراچی سے سرگودھا آنا پڑا تھا۔
 امیر محمد خان کے دور میں ہی پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈینینس آیا تو نوجوان پھر میدان میں نکلے۔ اثر چوہان نے صحافیوں کے مظاہرے اور علی جعفر زیدی نے این ایس ایف کے جوانوں کومنظم کیا تھا۔اسی طرح بے شمار احباب سے تبادلہ خیال کر کے وہ اب لندن لوٹ گئے ہیں۔سید مجاہد علی ناروے میں مقیم وہ باہمت اور بلند فکر صحافی اور دانشور ہیں جنہوں نے اپنے ڈیجیٹل جریدے کارواں کے ذریعے ایک مدت سے پاکستان کے اندر اور وطن سے دور مقیم پاکستانیوں کو آپس میں جوڑے رکھا ہے۔ سینئر صحافی سید تاثیرمصطفی مرحوم خود بھی اس جریدے کے لئے لکھتے تھے اور مجھے بھی آمادہ کیا۔ اگرچہ میں اپنے روزنامہ اخبار فرنٹ اور رائٹرز گلڈ کی مصروفیات کے باعث قلمی تعاون جاری نہ رکھ سکا لیکن اس دوران کارواں کو دیکھ پڑھ کر اطمینان ضرور ہوتا تھا کہ۔
کوئی تو جاگتا ہے شہر سے ادھر مرے لئے
 وہ روشنی سامنے وہ سائبان سامنے
کالم نگاری کے ساتھ کئی سال تک اپنے اس عہد ساز جریدے میں انہوں نے جو ادارئیے لکھے انہیں۔ امانتیں کئی سال کی۔کے عنوان سے شائع کیا گیا تو وہ احباب اور ہم وطنوں کے بیچ لاہور آ بیٹھے۔ ڈاکٹر نعیم ورک کی محبت سے ادارہ زبان و ادبیات پنجاب یونیورسٹی لاہور میں مکالمہ ہوا۔ کبھی پروفیسر زاہدحسن کی دعوت پر لمز یونیورسٹی میں آرٹ آف ریڈنگ اینڈ رائٹننگ کلاس کے سٹوڈنٹس سے سوال جواب کا سیشن کیا اور اپنی کتابوں پر گفتگو اور۔ امانتیں کئی سال کی۔ کی خوشبو عام کی۔ کبھی الحمرہ ادبی بیٹھک میں رونق افروز ہوئے جہاں عطا الحق قاسمی کی صدارت میں سہیل وڑائچ سجاد میر وجاہت مسعود ڈاکٹر نجیب جمال ڈاکٹر سعادت سعید اور کتاب کے پبلشر محمد فہد نے کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں۔ شاہ جی کی دس جلدوں پر مشتمل امانتیں کئی سال کی، پاکستان اور عالمی سیاست کی تاریخ کو ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کا حصہ بنانے کی کامیاب کوشش ہے جسے سب نے سراہا۔۔۔ اور اب ذکر ایک بڑی تقریب کا۔۔ لاہور میں خانہ فرہنگ ایران ہمیشہ علمی ادبی سرگرمیوں کے لئے دامن پھیلائے رکھتا تھا پھر ایک دو تکلیف دہ واقعات ہوئے اور اہل لاہور کی مثبت علمی ادبی سرگرمیوں کے لئے ایران کے ثقافتی مرکز کی سرپرستی  پہلے کی طرح دستیاب نہ رہی۔ اطمینان بخش بات ہے کہ خیبر پختون خواہ میں ایسا نہیں اور حال ہی میں وطن عزیز کی قلم کار اور دانشور خواتین کی تنظیم کاروانِ حوّا نے ایکسیلنس ایوارڈز کی ایک باوقار تقریب خانہ فرہنگ ایران میں منعقد کی ہے۔ یہ سلسلہ دو سال سے جاری ہے۔ اردو ، ہند کو اور پشتو مشاہیر سے موسوم ایوارڈز کے لیے ملک بھر سے نامور شعرا اور لکھاریوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس بار تقریب کی مہمان خصوصی اکادمی ادبیات کی چیئر پرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف تھیں۔ ڈپٹی قونصل جنرل ایران حسین مالکی اور ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ڈاکٹر حسین چاقمی مہمان اعزاز تھے۔
ڈاکٹر نادیہ رضا علی کی تلاوت کلام پاک کے بعد تابندہ فرخ نے ہدیہ نعت پیش کیا۔ کاروانِ حوا ّا لٹریری فورم کی چیئر پرسن بشریٰ فرخ ( تمغہ حسن کارکردگی) نے جو پاکستان رائٹرز گلڈ کے پی کے میں بھی بہت متحرک ہیں ،مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہا اور کاروانِ حوّا کی ادبی خدمات بیان کیں۔ اس موقع پر کاروانِ حوّا کے ادبی ترانے پر مشتمل ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی جسے بشریٰ فرخ نے تحریر کیا اور تابندہ فرخ نے ترنم سے پیش کیا۔ اس ویڈیو میں کاروان کی تمام اراکین کی تصاویر اور ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف ، حسین مالکی، ڈاکٹر حسین چاقومی اور بشریٰ فرخ نے ملک بھر سے آئے شعرا اور لکھاریوں میں ایوارڈز تقسیم کیے۔ احمد فراز ایوارڈ کراچی سے محترمہ زیب النساء￿ زیبی، امریکہ میں مقیم محترمہ تبسم محسن علوی، اور اسلام آباد سے ڈاکٹر شاہدہ لطیف کو ، خاطر غزنوی ایوارڈ پشاور سے پروفیسر ضیغم حسن ، ٹیکسلا سے ڈاکٹر فیصل ودود قریشی کو، محسن احسان ایوارڈ ایبٹ آباد سے عبدالوحید بسمل اور پشاور سے نشاط سرحدی کو، غلام محمد قاصر ایوارڈ فتح جنگ سے کرنل ریٹائرڈ خالد مصطفی ، پشاور سے پروفیسر اسحاق وردگ کو، مسعود انور شفقی ایوارڈ پشاور سے پروفیسر ملک ارشد حسین اور پروفیسر سید شکیل نایاب کو ، پشتو زبان کے لیے پریشان خٹک ایوارڈ مانسہرہ سے ڈاکٹر اسماعیل گوہر کو جبکہ امیر حمزہ شنواری ایوارڈ صوابی سے پروفیسر نور الامین کو پیش کیا گیا۔ ہند کو زبان کے لیے احمد علی سائیں ایوارڈ پروفیسر خالد سہیل ملک اوررائٹرز گلڈ کے پی کے روح رواں فقیر حسین مسرور کو ، حسان بن ثابت ایوارڈ اسلام آباد سے پروفیسر سبین یوسف، فیصل آباد سے ڈاکٹر مشرف انجم، ننکانہ سے زاہد اقبال بھیل، بہاولپور سے سید مبارک علی شمسی کو، فاطمہ جناح ایوارڈ کاروانِ حوّا کی سینیئر ممبران ڈاکٹر شاہدہ سردار ، ثمینہ قادر ، شمشاد نازلی کو پیش کیا گیا۔
 ادب اطفال کا خصوصی ایوارڈ راج محمد آفریدی کو اور کاروانِ حوّا کی جانب سے سینیئر صدا کار اور اداکارہ رانی عندلیب کو کیش ایوارڈ دیا گیا۔ منہاج القرآن وومن لیگ کی ناظمہ روبینہ معین نے کاروانِ حوّا اور بشریٰ فرخ کی ادبی خدمات کو منظوم خراج تحسین پیش کرتے ہوئے منہاج القرآن کی جانب سے انہیں اعزازی شیلڈ پیش کی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر نجیبہ عارف نے اپنے خطاب میں بشریٰ فرخ اور کاروانٍ حوّا کی ادبی کاوشوں کو سراہا۔انہوں نے ایران کے صدر اور دیگر افراد کی حالیہ شہادت پر ڈپٹی کونسل جنرل حسین مالکی اور ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ڈاکٹر حسین چاقمی سے تعزیت بھی کی۔ ڈاکٹر شاہدہ سردار نے بشریٰ فرخ کی کے پی کی خواتین شعراء  اور لکھاریوں کی سرپرستی اور ایک طویل فنی اور ادبی سفر کے اعتراف میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا جبکہ تابندہ فرخ کو ایمرجنگ رائٹر ایوارڈ پیش کیا۔ ہند کو وان تحریک کے اکبر سیٹھی نے اپنی تنظیم کی جانب سے بشریٰ فرخ کو شیلڈ پیش کی۔ نثار شیلڈز والوں کی جانب سے وقار احمد نے بشریٰ فرخ کو نعت ایوارڈ پیش کیا۔ ننکانہ سے تشریف لائے زاہد اقبال بھیل نے  بھیل انٹرنیشنل کی جانب سے بشریٰ فرخ اور ڈاکٹر سیما شفیع کو علمی ، ادبی اور تحقیقی خدمات پر ایوارڈ پیش کیا۔ ایسی تقاریب کا ہی یہ ثمر ہے کہ بظاہر کے پی کے جیسا بے چین صوبہ بھی کہہ سکتا ہے۔
وہ برگ سبز ہوں میں جو اداس رت میں بھی
 چمن کے چہرے پہ رونق بحال رکھتا ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن