امریکی صدارتی انتخابات میں کسی بھی امیدوار کا صرف اور صرف امریکی ہو نا اور اس کے ساتھ اس شخص کا بالغ ہونا ہی کافی ہے۔کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی اور شرط کی ،یہاں تک کہ انتخابی امیدوار کیلئے اچھے کردار کی بھی کو ئی شرط موجود نہیں ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 250سال سے امریکہ میں جمہوریت چل رہی ہے۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ اس وقت بھی رپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار ہیں ان کے خلاف بہت سے کیسز ہیں ،ان پر جرمانے بھی عائد ہو ئے ہیں اور اب تو ان کو جیل کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے ،کیونکہ عدالت نے انہیں ایک کیس میں مجرم قرار دے دیا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ صدارت کیلئے ناہل نہیں ہیں،اور نہ ہی ہوں گے۔ وہ جیل سے بھی امریکی صدر کا انتخاب لڑیں گے۔ہمارے ہاں صورتحال اسکے بالکل بر عکس ہے اور ہمارے ہاں تو کسی بھی امید وار کیلئے انتخابی فارم میں بھی مذہب کا خانہ ہو تا ہے ،اور کردار کا خانہ ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے بہت سارے خانے ہو تے ہیں جن کا مقصد بادی النظر میں امیدواروں کی چھانٹی کرکے عوام کے فیصلے کو محدود کرنا ہو تا ہے۔ اور اتنی شرائط لگانے کے بعد بھی ہمیں کوئی بھی صیح رہبر نہیں ملتا ہے۔ ہمیں ان تمام معاملات سے نکل کر حقیقی جمہوریت کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت مضبوط ہو گی تو ہی بہتر فیصلے ہو سکیں گے اور ہمارے مسائل کا حل نکلے گا۔ہم نے تمام سیاسی پراسیس پر قدغنیں ہی اتنی لگا دی ہیں کہ اچھے لوگ اس جانب آتے ہی نہیں ہیں۔ہمیں اس جانب توجہ دینا ہو گی اور اس سمت میں مناسب اقدامات لینے کی ضرورت ہے تاکہ اچھے لوگ اس عمل میں شامل ہو سکیں۔کیا اس وقت اسمبلیوں میں جو لوگ موجود ہیں ان سے بہتر کوئی اشخاص ہمارے پاس موجود نہیں ہیں؟۔ بالکل موجود ہیں کروڑوں کی آبادی میں ایسے سینکڑوں لوگ ہیں جو کہ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس تمام سیاسی اور جمہوری عمل سے باہر ہیں۔ان لوگوں کو سیاست میں لانے کی ضرورت ہے۔بہر حال جب تک اشرافیہ ہی سیاست پر قابض رہے گی تب تک ملک میں بہتری آنے کے امکانات معدوم ہیں۔ ہمیں بہتری کی کوششیں جاری رکھنی چاہیں، مایوس نہیں ہونا چاہیے لیکن اب وقت ہے کہ ہم اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کریں۔پارلیمان کو ہی دیکھ لیں پارلیمان کسی بھی جمہوری ملک میں تمام اداروں کی ماں ہو تی ہے اور تمام اداروں کے اختیارات کا منبع بھی پارلیمان ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا فور م ہے جس سے قانون سازی کی جاتی ہے اور ریاست کا نظام چلتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں جس انداز میں پارلیمان کو چلایا جاتا وہ قابل افسوس ہے اور ہمیں اس حوالے سے بہتری کی بہت ضرورت ہے۔ہمارے ہاں تو پارلیمان کو ایک ربڑ سٹیمپ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے اور ایک سال کی قانون سازی ایک دن میں کروا لی جاتی ہے۔ ہمیں ان معاملات سے نکلنے کی ضرورت ہے ،ہمیں جمہوریت کی روح کیمطابق طر ز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں شاید جو ارکان اسمبلی الیکٹ ہو کر آتے ہیں ان کی اتنی دلچسپی یا صلاحیت ہی نہیں ہو تی کہ وہ کسی طرح سے اس عمل کو بہتر انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ بہر حال پارلیمان میں بہتر قانون سازی کیلئے آرڈیننس کے اجرا پر مکمل پابندی عائد ہو نی چاہیے ، اور جو قانون سازی کا بل فلور پر موجود بھی ہو تو اس پر مکمل بحث ہو نی چاہیے، اس کی تشہیر کی جانی چاہیے اور پھر مکمل عوامی رائے کے بعد ہی قانون سازی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ قانون سازی ہمیشہ ایک سست رفتار عمل ہوتا ہے اور اگر اس کو جلد بازی میں کرنے کی کوشش کی جائے تو اس میں کئی قباحتیں ہو تی ہیں اور مسائل کا سامنا ہو تا ہے۔ آرڈیننس پر مکمل پابندی عائد ہو گی تو ہی پارلیمان بہتر انداز میں آگے بڑھ سکے گی اور اس کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو گا۔پارلیمان کو مضبوط کرنا وقت کی ضرورت ہے۔جمہوریت کا استحکام ہی معیشت کے استحکام کا ضامن ہے اور ہمیں اس جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔اگر یہ پارلیمان سنجیدہ ہے تو پھر 8ویں ترمیم کو ری وزٹ کیا جائے اور ما رشل لاء کے ادوار میں ہونیوالی تمام قباحتیں دور کی جائیں۔ وہ تمام ترامیم جو کہ مارشل لا ء کے ادوار میں ہمارے سامنے آئیں ہیں ان کو ختم کیا جائے۔
آئین اصل شکل میں بحال ہونے سے ہی جمہوریت بھی مضبوط ہو گی اور بنیادی حقوق کا تحفظ بھی ممکن ہو گا۔مارشل لاء دور کی سب سے خراب مثال نیب کا ادارہ ہے ،کس طرح سے یہ نیب کا ادارہ قائم کیا گیا اور اس ادارے کا واحد مقصد صرف اور صرف سیاست دانوں کو دبانا تھا اور ان کی وفاداریاں تبدیل کروانا تھا ،مہذب جمہوری معاشرے میں اس قسم کی کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہیں ہو نی چاہیے اور عوام کو کار کردگی کی بنیاد پر حکومتوں کو لانے اور نکالنے کا اختیار ہونا چاہیے۔نیب کو صرف اور صرف بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے ،حالیہ دنوں میں نیب کے قانون میں آرڈیننس کے ذریعے ایک مرتبہ پھر ترمیم کی کوشش کی گئی ہے ،میرا سوا ل یہ ہے کہ اس قانون میں ترامیم کی بجائے اس قانون کو آرڈیننس کے ذریعے ختم کیوں نہیں کیا جاتا ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے۔ احتساب کے لیے ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے بھی موجود ہیں اور ان سے اس حوالے سے کام لیا جاسکتا ہے۔ اور سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔موجودہ اسمبلی کو چاہیے کہ وہ 1973ء کے آئین کو اپنی اصل شکل میں بحال کرنے کیلئے قانون سازی کرے،اسکے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان کا سیاسی نظام کچھ اس طرح کا بن چکا ہے کہ جس میں ایک وزیر اعظم جیل میں ہو تا ہے تو ایک اقتدار میں ہو تا ہے اور جب پہلا جیل سے نکلتا ہے تو اقتدار میں آجاتا ہے اور دوسرا جیل میں چلا جاتا ہے اور یہ کام آج تک جاری و ساری ہے۔ اس کو اب ختم ہو نا چاہیے۔اگر ایسی ہی صورتحال رہی تو نہ زراعت رہے گی اور نہ ہی صنعت رہے گی اور نہ ہی پاکستان بنانے والوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا جس کے تحت انہوں نے پاکستان کیلئے وژن دیا تھا کہ یہ ایک ترقی یافتہ آزاد جمہوری ملک ہو گا جو کہ اسلامی دنیا کی قیادت کرے گا ،یہ خواب ،خواب ہی رہ جائیگا اور کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو پھر سیاست دانوں کو بھی سیاست کو کھیل سمجھنے کی بجائے اس کو عبادت سمجھ کر سر انجام دینا ہو گا اور سیاست میں اپنے مفادات اور تحفظ کی بجائے عوام کی بہتری کو ترجیح دینا ہو گی۔