دورہ چین کے تیسرے مرحلے میں وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف کی گزشتہ روز چین کے صدر شی جن پنگ اور اپنے ہم منصب چینی وزیراعظم لی چیانگ سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادتوں کے مابین پاکستان چین اقتصادی راہداری کی اپ گریڈیشن اور اسکے فیز ٹو پر کام شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم ہائوس کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق شہبازشریف نے بیجنگ کے تاریخی گریٹ ہال آف دی پیپل میں چینی صدر سے طویل اور مفصل ملاقات کی۔ دوران ملاقات وفاقی وزراء اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے چین میں پرتپاک استقبال پر صدر شی جن پنگ کا شکریہ ادا کیا۔ دوران ملاقات دونوں ممالک کے مابین موجود پائیدار شراکت داری کی توثیق کی گئی اور اسے مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقات میں علاقائی اور عالمی امور بشمول افغانستان‘ فلسطین اور جنوبی ایشیا بشمول بھارتی ناجائز زیرقبضہ کشمیر کی انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کے ملک کے باہمی دلچسپی کے امور پر اپنی دیرینہ حمایت کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنمائوں نے سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل پر اتفاق رائے کا بھی اعادہ کیا اور سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔ دونوں قائدین نے پاکستان میں چینی شہریوں‘ منصوبوں اور اداروں کی حفاظت اور سلامتی کیلئے پاکستان کے عزم اور مکمل حمایت پر زور دیا۔ صدر پنگ نے وزیراعظم پاکستان کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام بھی کیا۔ چینی صدر اور وزیراعظم پاکستان کی ملاقات دونوں ممالک کی پائیدار دوستی کو مزید آگے بڑھانے کی جانب اہم پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔ اس موقع پر چینی صدر نے کہا کہ پاکستان اور چین اچھے دوست ہمسائے اور بھائی ہیں۔ پاکستان اور چین کے سٹرٹیجک تعلقات مزید گہرے ہو رہے ہیں۔ چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کام کیلئے تیار ہے۔ دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور خطے کے استحکام کیلئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس ملاقات کیلئے وزیراعظم شہبازشریف گریٹ ہال آف پیپل میں پہنچے تو چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے دستے نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ جبکہ چین کے وزیراعظم لی چیانگ نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے چین کی نیشنل پیپلز کانگرس کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سے بھی ملاقات کی جس کے دوران باہمی تعاون اور روابط کو فروغ دینے پر اتفاق ہوا۔
وزیراعظم شہبازشریف کا دورہ چین اس حوالے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل سے پاکستان کے روشن مستقبل کی راہیں کھلتی دیکھ کر اسکے دیرینہ دشمن بھارت اور اسکے اندرونی و بیرونی بدخواہوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں جو اس منصوبے کے ناطے چین اور پاکستان کے تعلقات مزید گہرے ہوتے دیکھ کر آپے سے باہر ہو رہے ہیں چنانچہ وہ جہاں سی پیک کو سبوتاڑ کرنے کی گھنائونی سازشوں میں مصروف ہیں وہیں پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں اور کشیدگی پیدا کرنے کی سازشوں کے جال بھی پھیلا رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ چین اور پاکستان کی ضرب المثل دوستی آج اس پورے خطے کے ساتھ ساتھ عالمی امن و استحکام کی بھی ضمانت بن چکی ہے کیونکہ سی پیک کے ساتھ منسلک ہونیوالے اس خطے اور مغرب و یورپ کے ممالک سی پیک کے ذریعے اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی فضا مستحکم بنانے میں معاون بنیں گے جبکہ امریکہ اور بھارت کے اس خطے میں توسیع پسندانہ عزائم اس خطے کو امن کی وادی میں تبدیل ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ ان کا ایجنڈا ہی علاقائی اور عالمی امن کو تاراج کرکے علاقے میں اپنی تھانیداری اور تسلط قائم کرنے کا ہے جس کیلئے انہیں سی پیک جیسے خوشحالی کے منصوبے سدِراہ نظر آتے ہیں۔
اسی تناظر میں جب دس سال قبل پاکستان اور چین نے گوادر (بلوچستان) میں اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کی بنیاد رکھی تو اس پر سب سے پہلے بھارت اور پھر امریکہ نے اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور اس منصوبے کو اپریشنل ہونے سے روکنے کیلئے اپنی مختلف اندرونی اور بیرونی لابیز متحرک کر دیں۔ یقیناً بھارت کے ایماء پر امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے باقاعدہ بیان جاری کرکے اس ناطے سے سی پیک پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ یہ پاکستان کے متنازعہ شمالی علاقہ جات تک جائیگا جس سے کل کو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ کو کشمیر ایشو پر تو کبھی بھارت اور پاکستان کے متنازعہ علاقوں پر بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی مگر سی پیک کی تعمیر کو اسکی جانب سے اسی تناظر میں متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ پی ٹی آئی نے بھی اپنے دور اقتدار میں اسی بنیاد پر سی پیک پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس کے پورے دور حکومت میں سی پیک پر کام عملاً بند رہا اور یہی بھارت کا ایجنڈا تھا۔
اب جبکہ سی پیک سے وابستہ ممالک بشمول مغربی‘ یورپی‘ وسطی ایشیائی اور خلیجی ممالک کی جانب سے سی پیک کے ممکنہ ثمرات کی بنیاد پر اسکے گیم چینجر ہونے کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور اسی تناظر میں پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کی اپ گریڈیشن اور اسکے دوسرے فیز پر بھی کام شروع کرنے کا عندیہ مل رہا ہے تو خطے‘ بالخصوص پاکستان کی ترقی کے دشمنوں کو یہ سازگار فضا وارا نہیں کھا رہی۔ بھارت کی جانب سے اسی تناظر میں افغانستان کی معاونت سے گوادر اور اس سے ملحقہ بلوچستان کے علاقوں میں دہشت گردی کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ چینی باشندوں کو بھی خاص ٹارگٹ کیا جانے لگا۔ اس کا اصل مقصد پاکستان بشمول بلوچستان میں امن و امان کی خرابی کا تاثر دیکر سی پیک پر جاری چینی ماہرین کا کام رکوانا ہی تھا جبکہ اپنے شہریوں کی ہلاکتوں پر چین کی جانب سے پاکستان سے تحفظات کا اظہار بھی فطری امر تھا۔ تاہم پاکستان کی موجودہ حکومتی سول اور عسکری قیادتوں نے فہم و بصیرت کے ساتھ تمام معاملات سنبھالے اور برادر چین کے تحفظات دور کئے جس سے بالآخر وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ چین کی راہ ہموار ہوئی جس کے سی پیک کے توسیعی منصوبے کی صورت میں ثمرات بھی اب نوشتہ دیوار نظر آرہے ہیں۔
ملک کے بدخواہ عناصر نے یقیناً اسی تناظر میں شہبازشریف کے دورہ چین کے موقع پر بھی پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور سی پیک کے بارے میں منفی آراء بعض چینی دانشوروں سے منسوب کرکے سوشل‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حاشیہ آرائی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سی پیک کو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ثانوی حیثیت حاصل ہے تو پھر چین کی اعلیٰ قیادت کو اسے پاکستان چین مراسم کے ناطے سے اہمیت دینے اور پھر اسے توسیع دینے کی کیا ضرورت تھی جبکہ سی پیک کی اہمیت کو دیکھ کر ہی بھارت اور امریکہ نے اسکی تعمیر رکوانے کی سازشوں کا آغاز کیا اور یہ سازشیں ہنوز جاری ہیں۔ یہ بدطینت عناصر سی پیک پر چاہے جتنا مرضی اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے رہیں‘ خطے کی ترقی و استحکام کا یہ منصوبہ ایک حقیقت ہے جسے وزیراعظم شہبازشریف کے دورہ چین سے مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اس کیخلاف جاری سازشیں نہ اس منصوبے کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں اور نہ ہی پاکستان چین لازوال دوستی میں کوئی دراڑ پیدا کر سکتی ہیں۔