آئی ایم ایف کی طرف سے پنشن پر ٹیکس لگانے، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم کی مد میں ایگزمپشنز کو واپس لینے، تنخواہ دار اور بزنس انکم پر ٹیکس کی شرحوں کو بڑھانے کے مطالبات کو دہرایا گیا ہے۔ وزیراعظم اپنا دورہ چین مکمل کرنے کے بعد اس حوالے سے حتمی فیصلے کریں گے۔
اونٹ کو منہ خیمے کے اندر کرنے کی اجازت دیں گے تو وہ اس کے بعد پورے کا پورا خیمے کے اندر گھس آئے گا۔ یہی کچھ آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے۔اس کا ایک مطالبہ دوسرا مطالبہ دوسرے کے بعد تیسرا اور ہر مطالبہ صرف اس لیے تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اس نے ہمیں ایک پیکج دینا ہے دوسرا پیکج دینا ہے اور پیکج پہ پیکج دیئے جانے ہیں۔ہر آنے والی حکومت خود انحصاری کی جانب جانے کی بجائے آسان راستہ قرض کا تلاش کر لیتی ہے۔قرض پہ قرض لیے جاتے ہیں صرف اس لیے کہ جب اتارنے ہیں تو کوئی اور حکومت آ چکی ہوگی۔مگر یہ قرض حکومتوں پر نہیں قوم پر بوجھ ہوتے ہیں جو بہر صورت کبھی نہ کبھی تو سود سمیت ادا کرنے ہوتے ہیں۔مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق آئی ایم ایف نے مطالبہ کر دیا ہے کہ تنخواہ اور بزنس کی آمدن پر یکساں وصولی کی جائے۔ تمام ٹیکسوں پر چھوٹ ختم کردی جائے۔پنشن پر بھی ٹیکس لگادیا جائے۔ آئی ایم ایف کی ہر کڑی شرط پر سرتسلیم خم کرنے سے اسکے حوصلے اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ وہ غریب غربا کی معمولی کمائی اور تنخواہ پر بھی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر رہا ہے جو ہماری سانسوں پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔غریب اور متوسط طبقے کو زیر بار کرنے میں آئی ایم ایف کے مطالبات میں کوئی کسر باقی رہ نہیں گئی۔عام آدمی دو وقت کی روٹی سے بھی عاجز آچکا ہے۔ مہنگائی بے روزگاری پھن پھیلائے ہوئے ہے۔ کسمپرسی کا عفریت چہار سو رقص کناں ہے۔ اس سے ملکی سلامتی اور آزادی بھی اسکے شکنجے میں جکڑی نظر آرہی ہے۔ جب دوست ممالک کی بھرپور معاونت حاصل ہے تو آئی ایم ایف کے ساتھ ہزیمتوں کا سلسلہ کیوں جاری رکھا ہوا ہے۔کشکول توڑنے کے دعویدار کشکول توڑیں یا نہ توڑیں پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر جب بنانا ہوگا تب بنالیں ،سر دست آئی ایم ایف کے چنگل سے جان چھڑائیں اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھائیں۔