پشاور ائر پورٹ کا نام تبدیل نہیں ہونا چاہیے

Mar 09, 2011

پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
ڈاکٹر ایم اے صوفی
2008ءکے انتخابات کے بعد جب سے سابق صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی کے مخصوص طبقہ کی لیڈر شپ کی حکومت آئی ہے اس وقت سے یہ زعماءپاکستان کے ہر عمل کو رد کرنے کی کوشش میں محو ہیں مثلاً صوبہ سرحد کا نام اپنے رہبر کانگریسی لیڈر مہاتما گاندھی کے پیروکار ”سرحدی گاندھی“ عبدالغفار خان کی رٹ کو پورا کرنے کے لئے تبدیل کروایا۔ غفار خان صاحب نے مسلمانوں کے پیدا ہونے والے ملک پاکستان کی مخالفت کی اور تقسیم ہند پر رونا شروع کیا اور اپنے مہاتما گاندھی کو کہا ”آپ نے کانگریس نے تقسیم ہند قبول کر کے ہمیں پنجابی بھیڑیوں کے سامنے ڈال دیا اور ہماری خدمت کاکا نگریس نے کوئی صلہ نہیں دیا۔“
خان عبدالقیوم خان شیرِ سرحد نے پاکستان کے مخالفین کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ 29 مئی 1950ءکو پشاور یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے۔ لیاقت علی خان نے سنگ بنیاد رکھا۔ اس یونیورسٹی کا نام قیوم خان نہ لیاقت علی خان بلکہ پشاور یونیورسٹی رکھا گیا اور اب یہ لوگ ہیں کہ یونیورسٹی، سڑک اور ائر پورٹ کا نام اپنے لیڈر کانگریسی سرخ پوش ننگے گاندھی کے پیروکار پر رکھ رہے ہیں جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ یہ ملک آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد، قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت دو قومی نظریہ پر حاصل ہوا اور مسلم قومیت کا اجرا ہوا نہ کہ بنگالی، پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی۔ لہٰذا صوبہ سرحد کے عوام، حکومت کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ پاکستان کی بات کریں۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔ سبز ہلالی پرچم ہمارا پرچم ہے۔ یہ پرچم سرکاری عمارت کی علامت ہے۔ سیاسی پارٹی کا پرچم اپنی پارٹی کے دفاتر میں ہونا چاہیے۔ سرکاری عمارت، دفاتر، اسمبلی میں معمارِ قوم، معمارِ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر ہونی چاہیے۔ ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی پارٹی، اپنے لیڈر کو عزت دے مگر بانی پاکستان کی عزت سب پر لازم ہے۔ ہمارا سابق صوبہ سرحد حکومت کو مشورہ ہے کہ عوام کے مسائل حل کریں۔ غربت ہے، بے روزگاری ہے، لا اینڈ آرڈر نہیں، رشوت اپنے عروج پر ہے، سفارش و اقربا پروری ہے۔ لالچ سے دولت اکٹھی کی جا رہی ہے یہ راستہ ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان ہی کی بدولت آپ کو وزارتیں میسر آئی ہیں۔ سوچیں اگر سرحد، بھارت کا حصہ ہوتا تو آپ کیا ہوتے؟
قائداعظم محمد علی جناح نے 28 مارچ 1948ءکو اپنے خطاب میں فرمایا ”اگر ہم خود کو بنگالی، پنجابی اور سندھی وغیرہ پہلے اور مسلمان اور پاکستانی بعد میں سمجھنے لگے گے تو پھر پاکستان لازماً پارہ پارہ ہو کر رہ جائے گا۔ اسے کوئی معمولی بات قرار دے کر ٹالئے نہیں۔ اس کی شدتوں اور امکانات سے ہمارے دشمن بخوبی آگاہ ہیں اور میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ پہلے ہی اس سے غلط فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔“
مزیدخبریں