نیا”نظام سقّہ“ کون ہوگا؟

مغل تاجداروں میں سے شہنشاہ ہمایوں سولہویں صدی کے وسط میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں میدان ہار کے واپس آ رہا تھاکہ راستے میں اسے ایک دریا کا سامنا تھا۔ پیچھے دشمن اور آگے دریا، اس آدمی کے لیے پُل صراط سے کم نہیں ہوتا جو تیراک نہ ہو۔ پل صراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آگ کے دریا کے اوپر بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیزاس کی دھار ہے۔ ہمایوں کی نظر ایک ماشکی پرپڑی جو اپنا مشکیزہ بھرنے میں محو تھا۔ بادشاہ نے اس سے مدد مانگی۔ سقّہ نے بغیر یہ جانے کہ مدد مانگنے والا بادشاہ ہے اس بندہ خدا کو رحم دلی کے جذبے کے تحت دریا کے دوسرے کنارے پہنچا دیا۔ اس آدمی کا نام نظام اور پیشے کے لحاظ سے ماشکی یعنی سقّہ تھا۔ ہمایوں نے نظام کی طرف سے اپنی جان بچانے کی خدمت کے اعتراف میں ایک دن کی بادشاہت اس کے نام کر دی۔
جس دن نظام سقّہ بادشاہ بن گیا اس سے ایک رات پہلے اس نے سوچا کہ مدت بہت قلیل ہے اس تھوڑے سے عرصے میں زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس نے ایک ترکیب نکال لی کہ اگر چمڑے کا سکّہ رائج کیا جائے تو وہ خطیر رقم بٹور سکتا ہے۔ اس نے رات بھر اپنے اکلوتے سرمایے یعنی چمڑے کے مشکیزے سے اشرفی کے برابر سکّے بنائے۔صبح سویرے بادشاہی شروع ہوتے ہی اس نے شاہی فرمان جاری کیا کہ آج سے چمڑے کا یہ سکّہ سونے کی اشرفی کے برابر قیمت کا حامل ہوگا۔ اس نے چمڑے کے سکّے درباری ملازمین کے ذریعے سرکاری خزانے میں اشرفی کے سکّے میں تبدیل کر دیئے۔شام سے پہلے وہ بے شمار اشرفیاں اکٹھی کرکے نکلا اور ایک دن میں امیر ترین شخص بن گیا۔ شام کے بعد بادشاہی ہمایوں کو واپس دے دی گئی۔ اس کے بعد نظام سقّہ کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں رقم ہو گیا۔ تاریخ میں نام رقم کرانا ہی بڑی بات ہے۔
2008ءکو معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ 16مارچ کی رات بارہ بجے اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ انتخابات کے لیے پاکستان کے آئین کے تحت نگران وزیراعظم کی سربراہی میں عبوری حکومت 60دن میں انتخاب کرائے گی۔ نگران وزیراعظم کے لیے کوئی کوالیفکیشن اور کرائیٹیریا مقرر نہیں۔ اس کا تو مکمل پاکستانی ہونا بھی ضروری نہیں۔ معین قریشی کو پکڑ لو یا شوکت عزیز کو بلا لو۔ آفرین ہے الیکشن کمیشن کے۔ آئین کے تحت دوہری شہریت والا تو الیکشن ہی نہیں لڑ سکتا۔ شوکت عزیز نے الیکشن بھی لڑا اور وزیراعظم کے اہم ترین منصب تک بھی جا پہنچے بلکہ2002 ءسے لے کر 2013ءتک ان دس سالوں میں بی اے کی ڈگری کی شرط کا اس بُری طرح مذاق اڑایا گیا کہ اس پر پارلیمنٹ کی تاریخ بھی شرمندہ ہے۔الیکشن کمیشن اس دوران گھوڑے بیچ کے سویا رہا۔بہرحال اب نگران سیٹ اپ کی سلیکشن ہونے جا رہی ہے۔ چونکہ آئین میں کسی کے بھی نگران وزیراعظم بننے کا کوئی کرائیٹریا موجود نہیں۔ یہ دو اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی حکمرانی ہے اس لیے پاکستان کی دو سو سیاسی پارٹیوں کے سربراہان اور راقم خود ”نظام سقّہ“ بننے کی شدید خواہش رکھتے ہیں ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ ”نظام سقّہ “تو محض ایک دن کی بادشاہی سے تاریخ میں نام پیدا کر گیا۔ نگران وزیراعظم کی حکمرانی تو کم از کم 60نظام سقوں کے برابر ہو گی۔ جو لوگ ”نظام سقّہ “بننے کی دوڑ سے باہر ہیں وہ متوقع ”نظام سقّے “سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ان کا مسیحا ثابت ہوگا۔اسے کرپشن کے گر سیکھنے میں کئی ماہ درکار ہوں گے۔ اس دوران اس کی مدتِ اقتدار ختم ہو چکی ہو گی ۔ وہ چونکہ کرپشن سے دور ہوگااس کے لیے ملکی وسائل قومی مسائل حل کرنے کے لیے استعمال ہوں گے۔ لیکن ”نظام سقّہ“ تو یوں بے بس ہو گا کہ گلستان تو جمہوریت کے نام پر سیاستدانوں نے اجاڑ کے رکھ دیا۔مسائل حل کرنے کے لیے جب وسائل ہی نہیں ہوں گے تو ”نظام سقّہ “کیا کر پائے گا۔ یہ جانتے ہوئے بھی ”نظام سقّہ“ بننے کے لیے لوگ بے تاب ہیں کہ تاریخ میں نام رقم ہو جائے گا۔ سیّد یوسف رضا گیلانی کو بڑا بے ابرو کرکے وزیراعظم ہاﺅس سے نکالا گیا وہ اس کے باوجود بھی گردن اکڑا اور سینہ تان کر چلتے ہیں کہ میں پورے پاکستان کی تقدیر کا مالک رہا اور 18کروڑ عوام کی گردن سے ایک لمحہ کے لیے بھی پاﺅں نہیں ہٹایا۔ اس دوران سارا خاندان عوام کی جیبیں صاف کرتا رہا۔ گیلانی صاحب نے معاملہ جہاں چھوڑا تھا راجہ پرویز اشرف نے وہی سے شروع کر لیا۔ ایک داماد کو ورلڈ بینک میں لگایا تو دوسرے کو چائنہ کمپنی میں ڈپٹی ڈائریکٹر لگوا دیا۔ ہائی کورٹ نے نوٹس لے کر یہ میرٹ سے ہٹ کر کی گئی تقرری معطل کر دی۔ راجہ صاحب اپنے حلقے میں قومی وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہے اور نوکریاں بانٹ رہے ہیں اور ان کا حال ایک ایسے غریب الفطرت ڈاکو جیسا ہے کہ جس کو زندگی میں پہلی اور آخری بار صرف ایک ہی ڈاکہ مارنے کی مہلت ملے۔ان کے پیشرو بھی یہی کچھ کرتے تھے۔ یہ دونوں لمبی مدت کے نظام سقےّ ہیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ اگلا ”نظام سقّہ“ کون ہوگا۔ آئین کے تحت تو اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے نگران سقّے کا تقرر ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے موجودہ حکمران اپنی پوری کوشش کریں گے کہ انتخابات کی نوبت ہی نہ آئے۔ حالات ایسے ہو جائیں کہ پارلیمنٹ کو ایک سال کی توسیع مل جائے۔ یہ ممکن نہ ہو تو فوج ان کو جمہوریت سے نجات دلا دے۔ الیکشن میں جانے کے لیے ان کے ”پلے“ کچھ بھی نہیں۔ محض سر پر کرپشن کی گٹھڑی ہے جس کو دیکھ کر لوگ ووٹ نہیں دھکے دیں گے۔ اگر چاروں شانے چت ہو کر انتخابات کرانے بھی پڑے تو ”نظام سقّہ“ اپوزیشن کی مرضی کا نہیں حکمرانوں کو دریا پار کرانے والا ہوگا۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا کہ اپوزیشن نے اگر نگران وزیراعظم کی نامزدگی کے حوالے سے تعاون نہ کیا تو آئین اپنا راستہ خود بنائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق صدر پاکستان وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی رضا مندی سے نگران وزیراعظم کا اعلان کریں گے۔ اگر دونوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو تو آرٹیکل 244/A کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد تین دن کے اندر دو دو نام 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں گے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی کمیٹی تین روز کے اندر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کرے گی۔ اگر کمیٹی فیصلہ نہ کرپائی تو چار نام الیکشن کمیشن کو روانہ کردئیے جائیں گے جو دو روز کے اندر نئے ”نظام سقےّ “کے نام کا اعلان کرنے کا پابند ہوگا۔
ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے جہا ں ہر طرف لاقانونیت ،قتل و غارت، چادر اور چاردیواری کی پامالی اور عوام الناس کو ضروریات زندگی سے ان نظام سقوں نے اتنا دور کر دیا ہے کہ اب عوام صرف سانسیں ہی لے رہے ہیں اور حکمران اپنے نظام کو طوالت دینے کے لیے نت نئے منصوبے سوچ رہے ہیں کہ اگلا ”نظام سقّہ“ کون ہوگا؟

ای پیپر دی نیشن