مسلم لیگ (ن) کا منشور مناسب لیکن تضادات بھی ہیں


 مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اپنی پارٹی کاانتخابی منشور پیش کر دیا‘ جس میں کہا گیا ہے کہ اگر اقتدار میں آئے تو مزدور کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار روپے کی جائیگی، توانائی بحران کا 2 سال کے اندر خاتمہ کر کے لوڈ شیڈنگ ختم کی جائیگی، پاکستان 2020ءتک پانی، سورج کی روشنی ہوا اور حیاتیاتی ذرائع، قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے عالمی معیار کیمطابق توانائی کی پیداوار شروع کر دے گا۔ منشور میں توانائی بحران کا خاتمہ، کرپشن، لوٹ مار کا سدباب، تعلیمی اصلاحات، انصاف کی فراہمی اور روزگار کے مواقع مسلم لیگ (ن) کی ترجیح ہیں۔ منشور میں مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان، ہم بدلیں گے پاکستان کا سلوگن دیا گیا ہے، اہم نکات میں زرعی ترقی، جدید انفراسٹرکچر، منصفانہ احتساب، امن و امان اور گڈ گورننس شامل ہیں۔ بجٹ خسارہ اور افراط زر کی شرح میں کمی، مقامی حکومتوں کے انتخابات، ہزارہ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب سمیت تین نئے صوبے بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے مزید کہا کہ 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے صنعتی شعبے اور عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ یہ بحران ناقابل علاج نہیں بلکہ حکومتی کرپشن اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ملک کو لوڈ شیڈنگ اور غربت کے اندھیروں میں ڈبونے والے وفاقی حکمرانوں کو عوام آئندہ انتخابات میں شکست کے سمندر میں ڈبو دینگے۔ ہمارے منشور کا پہلا نکتہ معیشت کی بحالی ہے۔ معیشت کا موجودہ بحران ہماری قومی سلامتی کیلئے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ہماری ترجیحات کا دوسرا نکتہ توانائی کے بحران کو حل کرنا ہے جس کی بدولت سالانہ 5 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے اور دس لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور میں تقریباً تمام ملکی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے‘ لفاظی کی حد تک اسے آئیڈیل قرار دیا جا سکتا ہے‘ اس میں ملک میں جاری تمام بحرانوں کی ذمہ داری کل کی حلیف اور آج کی حریف پاکستان پیپلزپارٹی پر ڈالی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) 2008ءکے انتخابات کے بعد کچھ عرصہ مرکز میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ٹریژری بنچوں پر بیٹھی اور پیپلز پارٹی کا پنجاب حکومت میں ساڑھے تین سال تک ساتھ رہا۔ یوں مرکز اور پنجاب کی اچھائیوں اور برائیوں میں دونوں کا برابر نہ سہی‘ کسی حد تک عمل دخل ضرور ہے۔ اس کا دونوں کو اعتراف کرنا چاہیے لیکن چونکہ ہمارے ہاں نہ صرف حریف کی اچھائی کی تحسین کا کلچر نہیں ہے‘ بلکہ اچھائیوں کو بھی برائی بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس لئے بحرانوں اور عوامی مشکلات کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے سے رائے عامہ کو متاثر اور گمراہ کرنا آسان نہیں ہے۔
یہ منشور ایسی پارٹی کی طرف سے پیش کیا گیا جو خود آبادی اور وسائل کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر مقتدر ہے اور دو بار مرکز میں بھی بلاشرکت غیرے حکمران رہی۔ گو کہ مسلم لیگ (ن) کا جاری کردہ منشور بڑی کوشش سے تیار کیا گیا ہے جس میں سب اچھا اور ہرا ہرا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے تاہم اس میں کچھ تضادات‘ کچھ معاملات گول اور کچھ کا تذکرہ ہی نہیں کیا گیا۔ دفاعی بجٹ پارلیمنٹ میں لانا‘ تعلیمی ایمرجنسی کے ذریعے ناخواندگی کا خاتمہ‘ دانش سکولوں کا دائرہ پورے ملک تک وسیع کرنا‘ دینی مدارس کے نصاب کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا‘ خواتین کے حقوق‘ عزت اور وقار کو یقینی بنانا‘ اقلیتوں کو قومی دھارے میں مربوط کرنا‘ مزید موٹروے بنانا اور شٹل ٹرین چلانا ایسے منصوبے یقیناً قابل تحسین ہیں بیروزگاری کا خاتمہ‘ تھانہ کلچر کی تبدیلی‘ بلدیاتی انتخابات کا چھ ماہ میں انعقاد‘ زرعی ترقی جیسے وعدے بھی اسی منشور میں کئے گئے ہیں۔ یہ مسائل پنجاب حکومت میں رہتے ہوئے حل کیوں نہ کئے گئے؟ آزادانہ احتساب کمیشن کی تشکیل کا وعدہ کیا گیا ہے‘ بہت سے لوگ مسلم لیگ (ن) کے اس احتساب بیورو کے زخم خوردہ ہیں جس کے سربراہ سیف الرحمان تھے جو جیل میں آصف علی زرداری کو دیکھ کر انکے قدموں میں گر کر جھوٹے مقدمات بنانے پر معافی مانگتے دیکھے گئے۔ مسلم لیگ (ن) نے ہر موقع پر توانائی بحران کو پیپلز پارٹی حکومت کی کرپشن اور نااہلی کا شاخسانہ قرار دیا‘ اپنے منشور میں بھی میاں نواز شریف نے ایک بار پھر ایسا کہا ہے۔ ساتھ ہی دو سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا یقین ظاہر کیا۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تو ضروریات سے بھی قدرے زیادہ ہے۔ مسئلہ سرکولر ڈیٹ یا بقول مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے حکمرانوں کی کرپشن اور نااہلی کا شاخسانہ ہے۔ اس صورت میں قوم کو دو سال تک لوڈشیڈنگ کی سولی پر لٹکائے رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ راتوں رات تو نہیں‘ چند ماہ میں تو ضرور ہو سکتا ہے۔ مرکزی حکومت اپنے حریفوں پر میٹرو بس‘ لیپ ٹاپ‘ آشیانہ سکیم‘ اجالا پروگرام اور دانش سکولوں میں گھپلوں کا الزام لگاتی ہے تو پنجاب حکومت مرکز کو ملک کو تاریکیوں میں ڈبونے اور معیشت کا بیڑا غرق کرنے کا دوش دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بلاشبہ رینٹل منصوبوں میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف تک کو بھی کرپشن میں ملوث قرار دیا۔ پنجاب حکومت نے اپنے شہریوں کو اندھیروں سے بچانے کی کیوں کوشش نہیں؟ جبکہ بجلی کی پیدوار کا شعبہ صوبوں کے حوالے ہو چکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بجلی پیدا کرنے کے معاملات صوبوں کو تفویض کئے جانے کے بعد صوبے میں کتنی بجلی پیدا کی؟ کالاباغ ڈیم پاکستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کا بہترین منصوبہ ہے۔ اس سے پورے ملک کے پانی کے مسائل بھی کم ہو سکتے ہیں۔ اس کا مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے منشور میں ذکر ہی نہیں کیا۔ حالانکہ گزشتہ سے پیوستہ صوبائی بجٹ میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے دس لاکھ روپے علامتی طور پر مختص کئے گئے تھے۔ کچھ قوم پرستوں کی طرح پیپلز پارٹی کالاباغ ڈیم پر سیاست کر رہی ہے۔ نئے صوبوں کی تشکیل کو بھی اس نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ نئے صوبوں کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) بھی کچھ پیچھے نہیں رہی۔ ایک طرف یہ نئے صوبوں کی مخالفت کر رہی ہے تو دوسری طرف منشور میں بہاولپور‘ جنوبی پنجاب اور ہزارہ سمیت تین صوبے بنانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ مخالفین اسے دہرا معیار قرار دینے میں حق بجانب ہیں۔ میاں نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) طویل عرصہ سے سیاست میں ہے‘ اس دوران وہ دو مرتبہ اقتدار میں آئے‘ انہوں نے بدترین حالات کا سامنا کیا اور آمریت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ میاں صاحب کی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے سمیت بڑی قومی خدمات ہیں۔ انہوں نے کچھ کمزوریوں‘ کمیوں اور تضادات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے منشور کو مناسب قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس میں مزید بہتری کی گنجائش بہرحال ہے جس کیلئے میاں نواز شریف نے خود بھی دروازے کھلونے کا اعلان کیا ہے۔ وہ کالاباغ ڈیم‘ ایران سے گیس و بجلی کی ضرورت کے مطابق درآمد کے معاہدوں اور بھارت کو پسندیدہ ترین قرار دینے کی موجودہ حکومت کی پالیسی کے حوالے سے اپنا مافی الضمیر قائداعظم کے فرمودات کی روشنی اور پاکستان کے آزاد اورباوقار مملکت ہونے کے حوالے سے واضح کریں۔ پیپلز پارٹی کی عوام میں پہلے جیسی مقبولیت نہیں رہی‘ اس کا براہ راست فائدہ عمران خان کے سیاست میں فعال ہونے کے باوجود مسلم لیگ کو ہوگا۔ اس لئے انتخابی مہم کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ ملک و قوم کو درپیش مسائل سے نمٹنے اور بحرانوں پر قابو پانے کیلئے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل تھنک ٹینکس تشکیل دیں‘ تاکہ متوقع طور پر حکومت میں آنے پر افراتفری کی کیفیت نہ ہو‘ اس طرح ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے میں مدد ملے گی اور آسانی رہے گی۔
 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...