آزادی خود مختاری ۔۔ پہلے شرمساری

Mar 09, 2013

ریاض الرحمن ساغر

چھین نہیں سکتا کوئی ہم سے آزادی
اپنی آزادی تو ہم نے آپ لٹا دی
اپنی خطا کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں
ایک پرائی آگ میں ہم نے ٹانگ پھنسا دی
جان چھڑا کر اپنی ہم اس آگ سے نکلیں
گیت خوشی کا گائیں غم کے راگ سے نکلیں
کوئی مدبر مل جائے تدبیر کریں ہم
کل سے بہتر آج اپنی تقدیر کریں ہم
ایسا کرتی آئی ہیں سب زندہ قومیں
اپنے کئے پر آپ ہوئیں شرمندہ قومیں
ماضی پر پچھتائے مستقبل کو ڈھونڈا
طوفانوں سے لڑ کر پھر ساحل کو ڈھونڈا
ہم سے بعد ترقی کی وہ ہوئیں مسافر
خوب دکھایا سب سے آگے انہوں نے بڑھ کر
چین کو دیکھو اور تقدیر بدلنا سیکھو
بنو مصور اور تصویر بدلنا سیکھو
نسل جواں گر علم و ہنر کی شیدائی ہو
کسی بھی شے کی قلت اور نہ مہنگائی ہو
راج ہو اپنا کاج ہو اپنا دنیا دیکھے
آکے ہماری آنکھ سے سپنا دینا دیکھے
آج اگر ہم عدل کی عادت کو اپنا لیں
روکھی سوکھی کھا کر بھی کچھ ڈیم بنا لیں
ہر سو پھیلے صحرا کو گلزار بنائیں
مہکے گلشن ریت میں ایسے پھول کھلائیں
اوڑھ لیں اپنے تن من پر پھر سے آزادی
دشمن دیکھیں ہم نے گھر کی آگ بجھا دی

مزیدخبریں