چھین نہیں سکتا کوئی ہم سے آزادی
اپنی آزادی تو ہم نے آپ لٹا دی
اپنی خطا کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں
ایک پرائی آگ میں ہم نے ٹانگ پھنسا دی
جان چھڑا کر اپنی ہم اس آگ سے نکلیں
گیت خوشی کا گائیں غم کے راگ سے نکلیں
کوئی مدبر مل جائے تدبیر کریں ہم
کل سے بہتر آج اپنی تقدیر کریں ہم
ایسا کرتی آئی ہیں سب زندہ قومیں
اپنے کئے پر آپ ہوئیں شرمندہ قومیں
ماضی پر پچھتائے مستقبل کو ڈھونڈا
طوفانوں سے لڑ کر پھر ساحل کو ڈھونڈا
ہم سے بعد ترقی کی وہ ہوئیں مسافر
خوب دکھایا سب سے آگے انہوں نے بڑھ کر
چین کو دیکھو اور تقدیر بدلنا سیکھو
بنو مصور اور تصویر بدلنا سیکھو
نسل جواں گر علم و ہنر کی شیدائی ہو
کسی بھی شے کی قلت اور نہ مہنگائی ہو
راج ہو اپنا کاج ہو اپنا دنیا دیکھے
آکے ہماری آنکھ سے سپنا دینا دیکھے
آج اگر ہم عدل کی عادت کو اپنا لیں
روکھی سوکھی کھا کر بھی کچھ ڈیم بنا لیں
ہر سو پھیلے صحرا کو گلزار بنائیں
مہکے گلشن ریت میں ایسے پھول کھلائیں
اوڑھ لیں اپنے تن من پر پھر سے آزادی
دشمن دیکھیں ہم نے گھر کی آگ بجھا دی
آزادی خود مختاری ۔۔ پہلے شرمساری
Mar 09, 2013