لندن میں مقیم معروف پاکستانی شخصیت بیرسٹر ظہور بٹ کی کتاب ’’پاکستان کی کہانی، میری زبانی‘‘ کی تقریب رونمائی لاہور میں منعقد کی گئی تو مجھے بھی اس تقریب میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ کتاب کے پیش لفظ میں بیرسٹر ظہور بٹ نے لکھا ہے کہ انہیں یہ کتاب لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ آج پاکستان کو اس راستے اور مقاصد سے بہت دور ہٹایا جا رہا ہے جس کے حصول کی خاطر یہ ملک وجود میں آیا تھا۔ مصنف نے اس امر پرگہرے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اس ملک کو بنائے جانے کے اصل محرکات اور وجوہات کیا تھیں۔ مصنف نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کی کتاب پڑھنے کے بعد ہمارے نوجوانوں پر یہ واضح ہو جائیگا کہ پاکستان بناتے ہوئے قائداعظم کا قوم کیلئے اصل پیغام کیا تھا۔
بیرسٹر ظہور بٹ کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کا ایک حلقہ فکر آج بھی یہ اصرار کر رہا ہے کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت بات مذہب کی نہیں ہو رہی تھی بلکہ انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے بعد یہاں پر مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی حفاظت کی بات ہو رہی تھی۔ مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرارداد لاہور میں اسلام یا آزادی کے بعد پاکستان میں اسلام کے نفاذ کا کوئی ذکر موجود نہیں۔
بیرسٹر ظہور بٹ نے اپنی کتاب کے صفحہ 62 پر چند مہمل اور فضول سوالات بھی تحریر کئے ہیں جن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان اگر اسلام کی تجربہ گاہ کیلئے بنایا جا رہا تھا تو قائداعظم نے کیبنٹ مشن پلان کیوں تسلیم کر لیا تھا۔ کیبنٹ مشن کا بنیادی مقصد ہندوستان کی تقسیم کو روکنا تھا۔ اگر پاکستان ہی نہ بنتا تو اسلام کا تجربہ کہاں کیا جاتا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کو اسلامی تجربہ گاہ کیلئے بنایا جا رہا تھا تو پھر جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون کیوں بنایا گیا تھا جس کو اسلام یا اسلامی قوانین کا قطعاً علم نہیں تھا۔ میں بیرسٹر ظہور بٹ صاحب کی خدمت میں انتہائی احترام سے عرض کروں گا کہ ایک اچھوت جوگندر ناتھ منڈل کے بجائے اگر خود ظہور بٹ جیسے خیالات رکھنے والا مسلمان وزیر قانون بھی ہوتا تو ایک مسلمان نام کے علاوہ اور کیا فرق ہوتا۔ اگر ایک مسلمان وکیل بھی یہ دلائل دے رہا ہے کہ پاکستان اسلام کے نفاذ کیلئے نہیں بنایا گیا تھا تو پھر یہ دلیل تو انتہائی بے وزن ہے کہ جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون بنانے کا مطلب ہی یہی تھا کہ قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ اب رہا یہ سوال کہ قائداعظم نے جب کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کرکے قیام پاکستان کے مطالبہ سے ہی دستبرداری اختیار کر لی تھی تو اس سے بیرسٹر صاحب کا یہ مطلب نکال لینا بھی انتہائی عجیب ہے کہ قائداعظم اگر پاکستان کو اسلامی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے تو وہ ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کے مطالبے سے دستبردار کیوں ہو گئے تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیبنٹ مشن پلان کی قبولیت کا مطلب قیام پاکستان کے مطالبہ سے مستقل دستبرداری نہیں تھا۔ پھر کیبنٹ مشن پلان کو مسترد بھی تو قائداعظم نے ہی کر دیا تھا اور پاکستان مسلم لیگ کے پروگرام کیمطابق معرض وجود میں بھی آ گیا۔
میں بیرسٹر ظہور بٹ کے بے تکے قسم کے سوالات کا جواب تلخ انداز میں نہیں دینا چاہتا کیوں کہ وہ مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں اور دوسرا ان کا لکھنے کا رشتہ نوائے وقت کے ساتھ ہے۔ میں صرف انہیں یہ دعوت دوں گا کہ اگر وہ قائداعظم کے افکار کی روشنی میں قیام پاکستان کے اصل محرکات اور مقاصد جاننا چاہتے ہیں تو وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا شائع کیا ہوا اور ڈاکٹر مجید نظامی کا تحریر کیا ہوا کتابچہ ’’قائداعظم کا تصور پاکستان‘‘ پڑھ لیں۔ محافظ نظریہ پاکستان مجید نظامی لکھتے ہیں کہ ’’قائداعظم کے نزدیک اسلام نہ صرف مسلمانوں کی نجی زندگی کیلئے رہنما اصول فراہم کرتا ہے بلکہ اپنے پیروکاروں سے اپنی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور پوری اجتماعی زندگی کو بھی اسلامی نہج پر استوار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ قائداعظم پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے متمنی تھے نہ کہ ایک سیکولر ریاست جیسا کہ آج کل ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اور بزعمِ خویش مورخ ثابت کرنے کیلئے زور لگا رہے ہیں۔ بابائے قوم نے اغیار کی پھیلائی ہوئی بدگمانیاں دور کرنے کیلئے بارہا اپنی تقاریر میں فرمایا کہ پاکستان میں اسلام پر مبنی نظام حکومت کے سوا کسی دوسرے نظرئیے یا ازم کی کوئی گنجائش نہیں‘‘
مجید نظامی اپنے اس موقف کی بنیاد قائداعظم کے جس فرمان پر رکھتے ہیں وہ ان کا 13 جنوری 1948ء کا پشاور میں طلبہ سے خطاب ہے۔
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘
اس سے قبل صوبہ سرحد ہی میں 12 جون 1945ء کو قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کا منشا صرف آزادی اور خودمختاری کا حصول نہیں بلکہ وہ اسلامی نظریہ حیات ہے جو ایک بیش قیمت عطئے اور خزانے کی حیثیت سے ہم تک پہنچا ہے، جسے ہم نے نہ صرف قائم رکھنا ہے بلکہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے بھی اسکے فوائد کے حصول میں ہمارے ساتھ شریک ہو جائینگے‘‘
قائداعظم نے اپنے متعدد بیانات میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اسلام محض عبادات، روایات اور روحانی اعتقادات کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ کہ اسلام سیاست و اقتصادیات میں بھی ہمارا رہنما ہے۔ جب قائداعظم نے بار بار بڑی وضاحت سے یہ بیان کر دیا کہ پاکستان میں نظام حکومت صرف اور صرف دین اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائیگا تو اس وقت بھی کچھ ففتھ کالمسٹ یہ پراپیگنڈہ کرتے رہے کہ پاکستان کا مقصد ایک سیکولر ریاست تھا۔ چنانچہ 25جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ایسے عناصر کو قائداعظم نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیا۔
’’میں ان لوگوں کی بات سمجھنے سے قاصر ہوں جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پیراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائیگا۔ اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے‘‘
قائداعظم نے ایسے لوگوں کو گمراہ عناصر قرار دیا جو غیر مسلموں کو اسلام کے نفاذ سے خوفزدہ کر رہے تھے۔ قائداعظم کا ارشاد یہ تھا کہ انصاف، رواداری اور مساوی برتائو اسلام کے بنیادی اصول ہیں اس لئے غیر مسلموں کو اسلام سے کوئی خوف اور ڈر نہیں ہونا چاہئے۔بیرسٹر ظہور بٹ نے اپنی کتاب میں یہ بے بنیاد دعویٰ بھی کیا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے کوئی نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ نہیں لگایا جاتا تھا۔ (جاری)