سودی نظام ، عالمی معیشتوں کو جکڑنے کا منصوبہ!

یوتھ لون سکیم کے حوالے سے مذہبی سوچ رکھنے والے پاکستانیوں میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا اور یہ واضح نقطہ نظر اس حوالے سے یہ ہے کہ یہ سکیم ملک میں دیگر سکیموں کی طرح سود کی بنیاد پر ہے وزیر اعظم نواز شریف نے اسے شریعت اسلامی کے مطابق ڈھالنے کی ہدایت کر دی ہے ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام کی چیئر پرسن مریم نواز اس سلسلے میں بھی ملکی بینکوں کے سربراہوں پر زور دے رہی تھیں میں ذاتی معلومات کی بنیاد پر بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ مریم نواز کے حوالے سے یہ خبر سو فیصد درست ہو سکتی ہے مریم نواز میرے نزدیک خواتین کیلئے رول ماڈل ہے کہ پاکستانی عورت اپنی تہذیبی، مذہبی اور اخلاقی اقدار پر کار بند رہ کر اور ملک و قوم کی فلاح و ترقی کیلئے کردار ادا کر سکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سودی نظام ایک ایسی آکاس بیل ہے جس نے دنیا بھر کے ممالک کی معیشتوں کو بری طرح جکڑ رکھا ہے اور اس سے جان چھڑانا ہماری نظر میں مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے لیکن یہ فریب نظر ہے جس کی وجہ صحیح معلومات کا فقدان ہے اور اسکے نقصان اور مضمرات سے عدم آگاہی ہے چالاکی سے یا سادگی سے یہ فکر دامنگیر نظر آتی ہے کہ پھر ملک بھر میں بینکوں کا نظام کیسے چلے گا مالیاتی لین دین کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہو گا وغیرہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سودی نظام کو اپنے اور پیارے رسولؐ کیخلاف جنگ قرار دیا ہے کسی مسلمان کو اس سے فیض مل ہی نہیں سکتا بینکوں سے کروڑوں، اربوں کے قرضے لیکر بڑے بڑے کارخانے تو لگائے جا سکتے ہیں اور کاروبار تو شروع کئے جا سکتے ہیں لیکن اس طرح بینکوں کی جانب سے واپسی کے تقاضوں اور وصولی کے حربے اختیار کرنے کا عمل ہر لمحے خوفزدہ رکھتا ہے میرے ایک کارخانے دار دوست نے بینک سے قرضہ لے کر کارخانہ لگایا جو ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اور انکے ظاہری ٹاٹھ باٹھ سے بھی یہ لگتا ہے کہ اس کارخانے نے ان کیلئے آسودگی کے دروازے کھول دئیے ہیں لیکن ایک تو بلند سٹیٹس کے تقاضوں نے مت ماری ہوئی ہے اوپر سے بینک کے قرض کی بمہ سود واپسی عذاب جان ہے جب بھی ملاقات ہوتی ہے دکھڑے سناتے ہوئے ہی ملتے ہیں قرض اتارنے کیلئے دوسرے بینک سے قرض، میں نے ان سے سوال کیا برادر، کارخانے کی آمدنی کہاں جاتی ہے عجیب سی کیفیت ہے جواب دیا یار سمجھ نہیں آتی بڑی ہی بے برکتی سی ہے واقف حال ایک دوست کا کہنا ہے کہ بڑا کارخانہ دار ہو یا کاروباری ہیرا پھیری کے بغیر خود کو کھڑا نہیں رکھ سکتا آج پورے معاشرے پر نظر ڈالی جائے ہر طرف ناآسودگی، افرا تفری اور بے سکونی نظر آتی ہے ہم ایک ایسے معاشی اور مالیاتی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جس کے تمام تر ثمرات ایک محدود طبقہ کو حاصل ہوتے ہیں اور عالمی سیاست و معیشت کا جائزہ لیا جائے تو اس پر بھی چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تسلط ہے اس سے وابستہ نہایت قلیل طبقہ پوری دنیا کے وسائل پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا نظر آئے گا آئی ایم ایف اور عالمی بینک یہ در حقیقت سود خوروں کی عالمی انجمنوں کے ظاہری نام ہیں ان اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعہ سودی نظام تجارت کو پوری دنیا پر مسلط کر دیا گیا ہے پاکستان کا معاشی نظام بھی اسی جکڑ بندی سے باہر نہیں ہے پاکستان سمیت ترقی پذیر ملکوں کے میزانیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ماہرین تیار کرتے ہیں اور ان ملکوں کے وزرائے خزانہ محض اپنے نام سے قوم کے سامنے پیش اور نافذ کرتے ہیں ان اداروں کے ماہرین کی جانب سے تیار کردہ مالیاتی پالیسیاں بالحیر نافذ کی جاتی ہیں جن کا تمام تر فائدہ ان اداروں کو ہوتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے عوام نسل در نسل ان کے قرضوں اور سود کے گرداب سے باہر نہیں نکل سکتے بلکہ ان کا قرض ادا کرنے کیلئے ان ہی سے مزید قرض لیا جاتا ہے اور اس کیلئے انکی شرائط کو قبول کرنا پڑتا ہے جو عوام کا خون نچوڑنے والی ہوتی ہیں ایسا نہیں ہے کہ اس عفریت سے نجات نہیں مل سکتی البتہ اس کیلئے لازم ہے کہ ملک میں ایسی قیادت ہو جو ہر سطح پر کرپشن اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑے جو سرکاری سطح پر سادگی اور کفایت شعاری کو رواج دے سکے جو اندرونی معاشی نظم و نسق کو خود انحصاری کی بنیادوں سے مستحکم کر سکے آج کی دنیا میں ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے بھی اس جانب عملی پیش قدمی سے راستہ دکھایا ہے حکومت جرآت مندانہ فیصلے کرے سودی قرضے لینا بند اور قومی خزانہ کا ایک ایک روپیہ امانت بن کر پیداواری منصوبوں پر لگائے ، اربوں کروڑوں خرچ کر کے انسانی جھنڈے بنانے اور ترانے گانے جیسے غیر پیداواری کھیل تماشوں سے اجتناب کیا جائے اسی طرح بنکاری نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کر کے قومی سرمایہ کو پیداواری سرگرمیوں میں لگانے کے رجحان کو فروغ دیا جا سکتا ہے یہ مقصد مشارکہ اور مضاربہ کے حقیقی نظام سے حاصل کیا جا سکتا ہے حکومت ملک سے سودی نظام ختم کر کے دیکھ لے دنوں میں پاکستان معاشی قوت بن جائے گا تجربہ شرط ہے، بس حکمران ہمت کریں۔

ای پیپر دی نیشن