مئی کی تپتی دھوپ میں صحرا کے سفر کے دوران جب ہمارے ڈرائیور نے ایک ٹیلے کی چوٹی سے اترتے ہی جیپ کو بریک لگائی تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟ وہ بولا ادھر دیکھیں ایک شخص ہماری جانب آنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ شخص زمین پر گر گیا۔ ڈرائیور بولا یہ پیاس سے مرنے کو ہے۔اس نے جیپ سے واٹر کولر نکالااور ہم سب اس کی طرف روانہ ہوئے ۔ وہ شخص زمین پر دراز تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ڈرائیور نے واٹر کولر اس کے منہ کے قریب لا کر ٹونٹی کو تھوڑا سا کھولا پانی کا پہلا قطرہ جب اس کے ہونٹوں کو چھواتو اس نے بمشکل زبان نکال کر قطرے کی نمی کو چھونے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی اس کی پلکوں میں بھی ہلکی سے حرکت ہوئی ، میں نے ڈرائیور سے کہا جلدی سے پانی اس کے منہ میں ڈالیں، وہ بولا ایک دم پانی پلانا اس کے لیے خطر ناک ہو گا ، ایسی صورتحال میں قطرہ قطرہ پانی ہی دینا بہتر ہے۔ ڈرائیور قطرہ قطرہ پانی اس کے منہ میں ڈالتا رہا۔اس کی خشک زبان اور ہونٹ نرم تر ہوتے رہے۔ آخر اس نے آنکھیں کھول دیں۔
میں نے اس طرح زندگی لوٹنے اور "پیاس کی آس" کا یہ منظر پہلی بار دیکھا۔ یہ لمحہ پانی کے حوالے سے ـ"رحمت رب جلیل" کی ایک تفسیر تھا۔ ہم پینے کی میٹھے پانی کو کس طرح ضائع کرتے ہیں اور صحراکے باسی اپنی پیاس بجھانے کا پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں کا سفر کرتے ہیں۔ ہوش میں آنے کے بعد اس شخص نے بتایا کہ وہ" گلہ بان" ہے گزشتہ ہفتے جب وہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ادھر لایا تو قریبی "ٹوبے" (بارش کا پانی کا ذخیرہ) میں کافی پانی تھا۔ لیکن ہفتہ بھر کی تیز دھوپ نے اسے خشک کر دیا ۔ میں آج جب یہاں پہنچا تو میرے پاس پینے کا پانی ختم ہو چکا تھا اور قریب و جوار میں کوئی ٹوبہ بھی نہ تھا۔واپس جانے کی سکت نہ تھی، آپ کی گاڑی دیکھ کر دور سے اس کی جانب بھاگا تو پیاس کی وجہ سے ہمت جواب دے گئی اور گر گیا۔اللہ بھلا کرے آپ نے مجھے دیکھ لیا ورنہ ریت کے ٹیلے کی اوٹ میں اگر آپ کی نظر نہ پڑتی تو میں لقمہ اجل بن جاتا۔ اس واقعے نے مجھے ہلاکر رکھ دیا۔
ایک نیوز رپورٹر کے طور پر یہ منظر میرے ذہن پر ایسا نقش ہو ا ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا۔صحرائے تھر میں قحط سالی اور ٹیلی ویژن پر انسانی جسم کے پنجر دیکھ کر تین دہائی قبل کے اس واقعے نے میں ایک بار پھر جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔مجھے ٹیلی ویژن رپورٹر کی حیثیت سے زندگی کے بڑے اونچ نیچ دیکھنے کو ملے ہیں۔ قدرت نے پاکستان کو چاروں موسم،میٹھے پانی کے دریا، پہاڑ، زرخیز زمین اور معدنی دولت سے مالا مال سر زمین عطا کی ہے۔ تھر کا یہ علاقہ جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہیں وہاں زیر زمین کوئلے کے معدنی ذخائر کے انبار لگے ہیں ۔ ہم نہ تو زیر زمین اس ذخیرے سے فائدہ اٹھا سکے اور نہ ہی تھر کے باسیوں کی جن کی تعداد بمشکل دو لاکھ بھی نہیں، انہیں پینے کے پانی کی فراہمی کا اہتمام کر سکے۔
حکومت تھر اور سندھ کے کلچر کو نمایاں کرنے پر ارب ہا روپے(ایک اندازے کے مطابق 6ارب روپے) خرچ کر کے ناچ گانے کا اہتمام کرتی ہے لیکن چند کروڑ روپوں کے منصوبے شروع کرکے تھر کے عوام کو پانی فراہم نہیں کر سکتی یا قحط اور خشک سالی کے ایام میں انہیں متبادل "IDPs" یعنی اندرونی مہاجر بنا کر چند ماہ کے لیے خوراک کا انتظام کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کیسی حکومت ہے ؟ کیا پیپلز پارٹی جن کے قائد کا نعرہ روٹی ، کپڑا اور مکان تھا، وہ اپنے سندھ کے غریب ہاریوں کے لیے کپڑا اور مکان تو دور کی بات ، ان کے لیے پانی اور روٹی کا انتظام کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہ مجرمانہ غفلت قابل معانی نہیں۔ پیپلز پارٹی کے انہی حکمرانوں کو پانچ سال وفاق میں مقتدر رہنے کے بعد عوام نے صرف ایک صوبے تک محدود کر دیا۔کیا انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ سندھ کے ان غریب عوام کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کم از کم ایک اجلاس ہی بلا لیتے۔این ڈی ایم اے نے حکومت سندھ کو دو ماہ قبل وارننگ دی تھی کہ اس بار تھر میں بارشیں کم ہونے کی بناء پر خشک سالی کا خطرہ ہے اس لیے پیش بندی کر لی جائے، لیکن "جوں تک نہیں رینگی" بلکہ پیپلز پارٹی اور حکومت سندھ کی قیادت اس عرصے میں "سندھی ثقافت" کے نام پر جو کچھ کرتی رہی وہ ٹی وی ناظرین سے چھپا ہوا نہیں۔تھر کا معاملہ تو بڑی دور کی بات ہے سندھ میں ان کی حکومت کے دوران بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے مزار کے زیر یں کمرے میں جو" حرکات" تسلسل سے ہوتی رہی ہیں اور ٹی وی چینلز نے اس کے دستاویزی ثبوت بھی عوام کے سامنے پیش کئے ہیں اس کے بعد کہنے کو کیا رہ گیا ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان سال ہا سال سے بیڈ گورننس کا شکار ہے لیکن سندھ کی حد تک تو ان واقعات نے حکومتی مجرمانہ غفلت اور بے حسی کو طشت از بام کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے جس طرح تھر کے واقعے کا سوو موٹو نوٹس لیا ہے اس طرح مزار قائد کے واقعے پر بھی نوٹس ایک قومی تقاضہ ہے۔صحرائے تھر کی دل ہلا دینے والی خبروں نے کیا ہمارے قومی احساس کو جھنجوڑا ہے یا پھر یہ بھی خبروں کے انبار میں ایک اور ایسی خبرہے جس میں درجنوں ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہونے کا بیان ہے۔اس واقعے کی ذمہ داری بھی ماضی کی طرح ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے۔ امدادی کاموں کے اعلانات او ر فوٹو سیشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن کوئی نہیں جو ترجیحاً صحرا کے ان باسیوں کی زندگی کو تبدیل کرنے کی سنجیدہ منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہو۔
تھر کے متاثرہ عوام کے لیے وفاقی اور پنجاب کی حکومت نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ تو ایک فریضہ ہیں لیکن بحریہ ٹائون کے ملک ریاض نے ذاتی حیثیت میں 20کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کر کے ایک کارخیر کیا ہے۔ دوسرے مخیر حضرات کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہئیے۔اسی طرح این جی اوز، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو بھی تھر کو فوکس کرنا چاہیے۔یہ ایک قومی المیہ ہے۔ تھر کی صورت حال ایک رات میں پیدا نہیں ہوئی۔توانائی کا بحران اور دہشت گردی بھی راتوں رات سامنے سامنے نہیں آئی۔ ان سب کی وجہ ہماری حکومتوں کی سمت اور ترجیحات کا درست نہ ہونا ہے ۔ہمارا معاشرہ، معاشی، سیاسی، سیکورٹی اور اخلاقی اعتبار سے شدید انحطاط کا شکار ہے۔ حکومتوں کو صحیح سمت پر رکھنے کا ایک صرف اورصرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے کہ متحرک سول سوسائٹی۔ سول سوسائٹی کو چاہئیے کہ وہ عدلیہ اور میڈیا پر اپنا دبائو بڑھائے۔ میڈیا نشاندہی کرتا رہے اور عدلیہ انصاف کا ترازو پکڑے رکھے تب ہی سمت درست ہو گی۔ تازہ مثال اسلام آباد کچہری میں ہونے والی دہشت گرد کارروائی ہے جہاں پولیس حکام سے پہلے میڈیا پہنچ گیا اور تھر کی صورتحال بھی میڈیا ہی سامنے لایا ورنہ سندھ کی حکومت تو اپنے وسائل اور صلاحیتیں صرف اور صرف بلاول کو مستقبل کا وزیر اعظم بنانے کی تربیت میں صرف کر رہی تھی۔
وفاقی حکومت کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ بجلی اور گیس کے بحران میں ڈوبی قوم کو دس سال بعد پانی کے بحران کا سامنا ہوگا۔اس کے لیے پیش بندی کی ضرورت آج ہے، ورنہ دہشت گردی اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کی طرح پانی کے مسئلے کو حل کرنے کا سرا بھی آئندہ حکومتوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔