Global Tug of War

حال ہی میں بھارت اور سعودی عرب کے مابین دفاعی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے نے دونوں ملکوں کے مابین نئے سفارتی و قرابتی تعلقات کی بنیاد رکھی ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ امن پسند اور پُرامن ملک ہے لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ سعودی حکومت بہرحال ایک نظریاتی حکومت ہے۔ سعودی عرب پورے عالم اسلام کیلئے معتبر ہونے کے ساتھ پاکستان کیلئے بھی محترم ہے۔ سعودی حکومت کو پاک بھارت مسائل سے آگاہی بھی ہے اور وہ بھارتی حکومت کے مزاج سے بھی واقف ہے۔ سعودی عرب کی حکومت کو علم ہے کہ کشمیر کے تنازع سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں ایک ٹینشن کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ اسی ٹینشن کے سبب ماضی میں بھی پاک بھارت زبردست جنگیں ہو چکی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کیخلاف بھارتی آبی جارحیت کے سبب خطے کے امن کی تباہی کا ایک مزید بھارتی جنگی شوشہ چھیڑ چکا ہے۔ چونکہ آئندہ کے حالات جنگوں کیلئے نہایت خطرناک ہیں اس لے دونوں ملکوں کو نہایت محتاط رویہ اختیار کر کے چلنا پڑ رہا ہے کیونکہ موجودہ دور گلوبل وار آف ٹیرر کا دور ہے اور اس دور میں دو ملکوں کی جنگ عالمی جنگ بن جانے کے جیو پولیٹیکل حالات بن جاتے ہیں اور ایٹمی جنگ سے تباہی ہی نہیں بلکہ نیست و نابود ہو جانے کے امکان پیدا ہو چکے ہیں۔
 پاک سعودی عرب برادرانہ تعلقات ہمیشہ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں اہم رہے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں سعودی عرب پاکستان کا زبردستی حمایتی و مددگار بھی رہا ہے مگر یہ امر ناقابل فہم ہو گیا ہے کہ سعودی عرب کا بھارت کی طرف جھکائو کیسے ہو گیا؟ میں سمجھتی ہوں کہ سعودی عرب و بھارتی دفاعی معاہدے کو پاکستانی سالمیت کو تحفظ کیلئے ایک دھچکا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان کے اندرونی حالات جیسے بھی ہیں، سیاسی پیچیدگیاں و معاشی تنزلیاں کیا کیا نہ سہی بہرحال عالم اسلام پاکستان سمیت سعودی عرب کی سرزمین سے ایک جذباتی عقیدت رکھتا ہے۔ اس اثناء میں سعودی عرب کی حکومت کو اُمت مسلمہ کی عقیدت کے واسطے سے عالم اسلام کا ایک دوسرے کیلئے یکجا و یک قلب رہنے کا ادراک قائم رہنا چاہئے۔ سعودی حکومت کا اُمت مسلمہ سے نظریاتی و دینی فلسفے کا علمبردار ہونا ہی عالم اسلام کیلئے باعث اطمینان رہنا چاہئے۔ سعودی حکومت نے بھارت جیسے سیکولر و لادین ملک سے دفاعی معاہدوں کے آغاز سے خصوصی طور پر پاکستان ایسی نظریاتی مملکت کیلئے تحفظات پیدا ہو گئے ہیں۔ میں اس وقت سعودی عرب کی الفت و محبت کی ہَوا بھارت کی طرف بڑھتی دیکھ کر مضطرب ہو رہی ہوں تو اس لمحے میں اپنی موجودہ و گزشتہ حکومتوں کی بھارت یاترا دیکھ کر شرمندہ بھی ہو رہی ہوں بلکہ میرے ساتھ پوری قوم سُبکی محسوس کر رہی ہے، ایسے میں سعودی عرب ہو یا ایران و افغانستان یا کوئی اور برادر اسلامی ملک بھارت کے ساتھ سفارتی، تجارتی و دفاعی تعلقات بڑھائے تو کیا حرج ہے؟
 پاکستان بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے پر تُلا ہے، حکومت پی پی کی ہو یا مسلم لیگ کی، کوئی بھی بھارت کے آ گے گھٹنے ٹیکنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ افغانستان نے پاکستان کی تمام مہربانیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کو دفاع کے شعبے کیلئے خیرسگالی و تعاون کے خیر مقدم کا پیغام دیا ہے۔ ایران بھی امریکہ سے دفاعی معاہدوں کے بعد اب بھارت سے دفاعی معاہدے کرنے کے پَر تول رہا ہے یہ سب اس لئے کہ پاکستانی حکومتیں سفارتی محاذ پر بھارت سے بہت پیچھے ہی نہیں بلکہ سفارتی سطح پر ناکام ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ پاکستان بھارت کے منافقانہ و مکار چہرے کو بے نقاب کرتا اور کم از کم برادر اسلامی ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرتا مگر پاکستانی حکومتیں خود بھی بھارتی ’’لَوّ یُو‘‘ کے ترانے بجانے لگ گئے تو اس سے دوسروں کو بھی رغبت ہونا فطری تھا۔ ان حالات میں ہم کیا سمجھیں کہ ہمارے ہمسائے، ہمارے برادر اسلامی ممالک اور ہمارے دوست اتحادی ممالک بھارتی تنازعات و مسائل کے حل میں ہمارے ہمدرد و مددگار ہو سکیں گے؟ جیو پولیٹیکل منظرنامہ اب بدل چکا ہے۔ موجودہ منظرنامے میں جنگ سے زیادہ سفارتکاری مفید ثابت ہو رہی ہے۔ اب پاکستانی حکومتوں کو اپنی ادائوں پر غور کرنا ہو گا، حقیقت شناسی سے کام لینا ہو گا۔ پوری دنیا کے گلوبل پولیٹیکل کے موجودہ منظرنامے میں کم از کم اسلامی دنیا کو اپنے مسائل کے حوالے سے اعتماد میں لینا ہو گا۔ نظریاتی برادری کو بکھرنے سے بچانے کیلئے بہترین فریم آف ایکشن تیار کرنا ہو گا وگرنہ دشمن سیاسی، سفارتی و معاشی عروج کے حصول کی راہیں یونہی مسدود کرتا رہے گا۔ سیاست، اقتصادیات و ہتھیار کی ’’گلوبل ٹگ آف وار‘‘ نظریاتی دنیا کیلئے خطرناک ہے۔

ای پیپر دی نیشن