جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادرِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلہ میں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے ’’Covering Candidate‘‘ جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے اور 2008ء کے صدارتی انتخاب میں صدارتی اُمیدوار جناب آصف زرداری نے اپنی بہن محترمہ فریال تالپور کو اپنا کورِنگ کینڈیڈیٹ مقرر کِیا تھا۔
’’جناب اسحاق ڈار ’’چیئرمین سینٹ؟‘‘
فیلڈ مارشل ایوب خان کو خوف تھا کہ ’’کہیں چیف الیکشن کمِشنر آف پاکستان انہیں سرکاری ملازم (فیلڈ مارشل) قرار دے کر انتخاب کے لئے نااہل نہ کر دیں؟‘‘ اور جنابِ زرداری کو اپنی جان کا خطرہ تھا۔ انہوں نے اپنی بہن محترمہ فریال تالپور کو اپنا کورنگ کینڈیڈیٹ مقرر کر کے امریکی سفیر سے کہا تھا کہ ’’میرے بعد میری بہن کا خیال رکھیں!‘‘ لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنابِ زرداری دونوں کے خدشات غلط ثابت ہُوئے۔ جنابِ ڈار کا مسئلہ مختلف ہے۔ انہوں نے 9 جون 2014ء کو راولپنڈی میں ’’بین اُلاقوامی مِیلاد کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’مجھے حضرت داتا صاحب سیّد علی ہجویری‘‘ نے وفاقی وزیرِ خزانہ بنا کر اسلام آباد بھیجا ہے۔‘‘
مَیں نے لِکھا تھا کہ ’’کیا ہی اچھا ہو کہ جِس طرح دربار داتا صاحب میں ہر روز ہزاروں لوگوں کو مُفت کھانا مِلتا ہے اُسی طرح شاید جناب ڈار بھی اپنے دَور میں پاکستان کے ہر شہر میں غریبوں کے لئے مُفت کھانے کا بندوبست کر دیں؟‘‘ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اب خبر آئی ہے کہ ’’مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جناب اسحاق ڈار کو چیئرمین سینٹ مُنتخب کرانے کا فیصلہ کر لِیا ہے بصورت دیگر راجا ظفرالحق سینٹ کی چیئرمین شِپ کے امیدوار ہوں گے۔‘‘ گویا راجا صاحب جنابِ ڈار کے Covering Candidat‘‘ ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جنابِ ڈار کو سینٹ کا چیئرمین مُنتخب کروانے کے لئے حضرت داتا صاحب سے منظوری حاصل کر لی ہے؟ اور اگر نہیں تو صِرف راجا ظفرالحق کو ہی چیئرمین شِپ کا اُمیدوار کیوں نہ نامزد کِیا جائے؟
عمران خان کے بکرے؟
مولانا فضل اُلرحمن کہتے ہیں کہ ’’خیبر پی کے میں دھاندلی کا شور مچانے والے خُود چور نِکلے‘‘ یعنی ’’چور مچائے شور‘‘۔ مجھے تو شرعی مسائل کے بارے میں بہت کم واقفیت ہے لیکن کیا مولانا فضل الرحمن خُود یا اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی سے پُوچھ کر بتائیں گے کہ ’’کیا سینٹ میں دھاندلی کا شور مچانے والے ’’چوروں‘‘ کے ہاتھ کاٹے جا سکتے ہیں؟‘‘ سینٹ کے انتخاب سے ایک دِن پہلے مولانا فضل الرحمن نے ’’ہارس ٹریڈنگ اور کھوتا ٹریڈنگ‘‘ کے شور میں ’’He Goat Trading‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’عمران خان اپنے بکروں کی حفاظت خُود کریں!‘‘ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟‘‘ کی ضرب اُلمِثل مشہور ہے لیکن ’’بکروں کا لِیڈر یا چرواہا کب تک اپنے بکروں کی خیر منائے گا؟‘‘ کی ضرب اُلمِثل کے مُوجِد مولانا فضل اُلرحمن بن گئے۔ مولانا صاحب نے جنابِ زرداری کے اعزاز میں ظہرانہ ترتیب دِیا تھا ٗ اُس میں روسٹ کِیا ہُوا ’’سالم بکرا‘‘ بھی تھا۔ وہ کِس کا اور کہاں کا تھا؟ عمران خان کا؟، ڈیرہ اسماعیل خان کا، پشاور کا، کابل کا یا کسی دوسرے اسلامی برادر مُلک کا؟
ندیم افضل چَن کی ’’شکستِ فاتحانہ؟‘‘
پنجاب سے سینٹ کی نشست کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوار جناب ندیم چَن کو مُسلم لیگ (ن) کے 12 باغی ارکان اسمبلی نے بھی ووٹ دیئے لیکن وہ ہار گئے تاہم چَن صاحب نے حکومتی پارٹی کے مضبوط قِلعہ میں شگاف ڈال دِیا۔ جنابِ چَن کو ’’قَلعہ کُشا‘‘ کا خطاب بھی دیا جا سکتا تھا لیکن جنابِ زرداری نے اُنہیں صِرف اِتنا کہا کہ ’’چَن تُم چھا گئے!‘‘ بہرحال چَن صاحب بڑے ’’دَم دار‘‘ سیاستدان ثابت ہُوئے۔ اِسے ’’چَن چڑھانا‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ پنجابی کا ایک اَکھان ہے ’’چَن چڑھیا کُل عالم ویکھے‘‘ کمال ہے کہ اِس چڑھے ہُوئے چَن (چاند) نے مسلم لیگ (ن) کو ’’چَن گرہن‘‘ لگا دِیا۔ ایک دوسرے اَکھان کے مطابق ’’چَن دی چاننی (چاندنی) تے غریب دی جوانی اِنج ہی (رائیگاں) جاندی اے‘‘ میری طرح چَن صاحب کے سَر پر بھی آدھے بال ہیں لیکن وہ نیوز چینلوں پر اپنی مُسکراہٹیں اور قہقہے بکھیرتے ہُوئے جوان بلکہ نوجوان لگتے تھے۔ اگر چَن صاحب چیئرمین بلاول بھٹو کے ساتھ کھڑے ہوں تو جناب ِ زرداری کو پارٹی کے جیالوں کے لئے سوئٹزر لینڈ سے ’’Moon Energy‘‘ منگوانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اب میاں صاحبان نے جو کرنا ہے کر لیں؟
جناب عِمران خان نے میاں شہباز شریف کو طعنہ دِیا ہے کہ ’’مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ پنجاب اسمبلی کی بغاوت کی وجہ سے آپ اپنا عُمرہ ادُھورا چھوڑ کر وطن واپس آ گئے۔‘‘ بھولے خان صاحب! جب گھر میں آگ لگی ہو تو بعض مسلمان تو نماز بھی ادُھوری چھوڑ دیتے ہیں اور ’’قضائ‘‘ پڑھ لیتے ہیں تو ’’عُمرہ قضائ‘‘ کیوں نہیں کِیا جا سکتا؟ اور ’’جاتی عُمرا‘‘ کے مکِینوں کے لئے تو کوئی مُشکل ہی نہیں۔ وہ تو سینکڑوں عازمین عُمرا کی خواہش پُورا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ ’’ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے۔‘‘ لیکن کسی بھی سیاسی جماعت میں بغاوت کی آگ جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
کہانی کے بادشاہ نے اپنے وزِیر سے پُوچھا کہ ’’اے وزِیر باتدبِیر! اگر بیک وقت میری اور تمہاری داڑھی میں آگ لگ جائے تو تُم پہلے میری داڑھی بجھائو گے یا اپنی؟‘‘ وزیر باتدبِیر نے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا کہ ’’بادشاہ سلامت! پہلے مَیں اپنی داڑھی کی آگ بجھائوں گا تاکہ مَیں پھر اطمینان سے آپ کی داڑھی کی آگ بجھا سکُوں!‘‘ وزیرِ باتدبیرکے اِس بیان کے بعد ’’بادشاہ سلامت‘‘ نے اُس کے ساتھ کیا سلُوک کِیا؟ راوی خاموش ہے۔ ہندوستان کے تُرک ٗ افغان اور مُغل بادشاہوں کے دَور میں جاگیریں موروثی نہیں ہوتی تھیں۔ جب کوئی جاگِیر دار مر جاتا تھا تو اُس کی جگہ بادشاہ نیا جاگِیردار مقرر کر دیتا تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ مرنے والے جاگِیر دار کے بیٹے یا بھائی کو جاگِیر کا مالک بنا دِیا جائے لیکن انگریزی حکومت نے جاگِیر داری کو موروثی بنا دیا تھا۔
ہماری سیاسی/ مذہبی پارٹیاں بھی مورُوثی ہیں۔ حکومت اور پارٹی کے بڑے عہدے پارٹی لِیڈر اور اُس کے خاندان کے افراد کے پاس ہوتے ہیں اور باقی بھی اُن کے چہیتوں کے پاس۔ جنابِ آصف زرداری نے پنجاب سے سینیٹ کے انتخابی میدان میں اپنے اکلوتے بیٹے چیئرمین بلاول بھٹو کو نہیں بلکہ ہارنے کے لئے جناب ندیم افضل چَن کو میدان میں اُتارا۔جناب ِ زرداری کو اپنے اُس وعدے کا بھی خیال نہیں رہا کہ ’’میری اور وزیراعظم نواز شریف کی دوستی کئی نسلوں تک قائم رہے گی۔‘‘ شاید جنابِ زرداری کو خادمِ اعلیٰ کے وہ اعلانات یاد آ گئے ہوں جِس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’مَیں صدر زرداری سے لُوٹی ہُوئی قومی دولت وصُول کرنے کے لئے انہیں سڑکوں پر گھسِیٹُوں گا!‘‘
مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں مسلم لیگ (ن) کے جن 10 باغی ارکان نے جناب ندیم افضل چَن کو ووٹ دِیا ہے اس کے بعد ’’شیر کے انتخابی نشان‘‘ والی مسلم لیگ (ن) میں بغاوت کی بھیڑ چال نہ شروع ہو جائے؟ اگر جناب ندیم افضل مجھے تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اُس وقت اُن کے ساتھ اُن کے 16 ووٹرز بھی ہوں تو مَیں اُن سب کو اسلام آباد یا لاہور کے کسی فائیو سٹار ہوٹل میں ’’Heavy Tea‘‘ پلانے کا وعدہ کرتا ہُوں۔ جناب جگرؔ مراد آبادی نے سینٹ کا انتخاب تو کبھی نہیں لڑا تھا لیکن نہ جانے کِس میدان میں شکست کھا کر کہا تھا کہ ؎
’’تجھے اے جِگر مُبارک یہ شکستِ فاتِحانہ!‘‘
ندیم افضل چَن کی ’’شکستِ فاتحانہ؟‘‘
Mar 09, 2015