تحفظ خواتین بل : ہنگامہ ہے کیوں برپا

Mar 09, 2016

فریحہ ادریس

پنجاب اسمبلی نے خواتین کو گھریلو تشدد اور معاشی استحصال سے تحفظ دینے کا قانون کیا منظور کیا، پاکستان میں ایک مخصوص حلقے کی جانب سے مخالفت کا طوفان برپا کر دیا گیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ یہ مخالفت اسلام کے نام پر کی جا رہی ہے ، اسے قران و سنت کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔ اسے خاندانی نظام کی تباہی کہا جارہا ہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عورتوں پر تشدد کرنیوالے کسی شخص کیخلاف اگر قانون بنایا گیا ہے تو کچھ لوگوں کو اس سے خوف کیوں آ رہا ہے ؟ عورتوں کو تحفظ دینا اور انہیں تشدد سے بچانا خلاف اسلام کیسے ہو گیا ؟ اس قانون کی زد میں تو وہی شخص آئیگا جو کسی عورت کو تشدد کا نشانہ بنائے گا اور اس کیخلاف شکایت درج کی جائیگی پھر الزام ثابت ہو گا تو اسے سزا ملے گی۔ اس سارے عمل میں کون سی چیز ہے جو خلاف شرع اور خلاف آئین ہے؟ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں لوگ خواتین کے معاملے میں بہت خوش فہمی کا شکار ہیں اور یہ اخذکر لیا گیا ہے کہ ملک میں خواتین کو تمام حقوق حاصل ہیں اور خواتین پر ظلم و ستم کی داستانیں چند این جی اوز اور مغرب زدہ خواتین نے گھڑی ہوئی ہیں۔ کاش ایسا ہی ہوتا مگر حقائق بہت ہی تلخ ہیں ، سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے مقابلے میں پنجاب نسبتاً زیادہ ماڈرن صوبہ سمجھا جاتا ہے، اسی صوبے کے صرف نوے دن کے اعداد و شمار پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ پنجاب میں گزشتہ سال کے پہلے تین ماہ میں خواتین پر تشدد کے 1400 واقعات رپورٹ ہوئے ، خواتین کیخلاف تشدد کے سب سے زیادہ کیسز ضلع فیصل آباد میں ہوئے جن کی تعداد 282 تھی ، جبکہ لاہور خواتین پر تشدد میں دوسرے نمبر پر رہا۔ تین ماہ میں اغوا کے 378کیس رپورٹ ہوئے۔ جنسی زیادتی کے 265، قتل کے 207، خودکشی کے 110 واقعات ، غیرت کے نام پر قتل کے 67 کیسز سامنے آئے جب کہ خواتین کو ونی کرنے کے 7 کیسز اور تیزاب پھینکنے کے 16 واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ، ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ ،گھریلو تشدد کے اسی فیصد واقعات تو رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے ، اورذہنی تشدد تو کسی شمار میں ہی نہیں آتا۔
اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سال 2008 میں بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں پانچ خواتین کو زندہ دفن کر دیا گیا اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر نے ایوان میں فرمایا تھا کہ علاقے کے لوگوں نے قبائلی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ عورتوں کو زندہ دفن کیا ہے اس لیے اس معاملے کو نہ ا±چھالا جائے اور پھر واقعی اس دردناک واقعے کوکسی نے بھی نہ اچھالا اور ان پانچ مظلوم عورتوں کا خون بھلا دیا گیا۔ پاکستان میں خواتین کے معاملے کے دو پہلو ہیں ایک قوانین دوسرا معاشرے کا رویہ ، جب تک رویہ نہیں بدلے گا قانون سازی بھی موثر ثابت نہیں ہو گی، جہاں خواتین کو روایت کے نام پر قتل کرنے کا اعتراف بڑے دھڑلے سے قانون ساز ادارے کے ایوان میں کیا جا رہا ہو وہاں قانون بھلا کیا کر لے گا ؟ پاکستان میں خواتین کے متعلق یہ رویہ اس لیے پروان چڑھا ہے کہ اعلی حلقوں میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عورت صرف میری بیوی ، بہن یا گھر کی دیگر خواتین ہیں ، چونکہ ان سب کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں اس طرح معاشرے میں باقی تمام عورتیں بھی آرام سے چین کی زندگی گزار رہی ہیں ، کاش کبھی یہ لوگ کبھی اس سے آگے بھی سوچ سکیں ، کبھی اپنے گھر کام کرنے والی ملازمہ ، اپنے دفتر کے استقبالیہ پر بیٹھنے والی ریسپشنسٹ ، کسی ایئرہوسٹس ، کسی کارخانے میں دس گھنٹے کام کر کے پندرہ ہزار روپیہ ماہوار کمانے والی لڑکی یا بھٹے پرمزدوری کرنیوالی کسی عورت سے بات کر کے دیکھیں تو انہیں علم ہو گا کہ انکی زندگی کس طرح گزر رہی ہے اور انکے مسائل ہیں کیا ؟ اسی رویے کی وجہ سے پورے معاشرے میں عورتوں کی حالت زار کے متعلق ایک مسلسل انکار کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ یہ تسلیم ہی نہیں کیا جاتا کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد اس معاشرے میں برابر کی حیثیت کے بجائے صرف پاﺅں کی جوتی اور ذاتی جاگیر سمجھتی جاتی ہے جس کے ساتھ جو چاہے کیا جا سکتا ہے۔ یہاں مجھے کراچی کی تین سال کی معصوم ثنا یاد آرہی ہے۔ جسکے ساتھ دو پولیس والوں نے زیادتی کی اور اسے قتل کر کے ایک گٹر میں پھینک دیا۔ پہلے تو پولیس والے اپنے پیٹی بھایﺅں کیخلاف کیس کو درج کرنے سے ہی انکار کرتے رہے جب معاملہ میڈیا پر آیا اور پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے اس کیس میں ذاتی دلچسپی لی تو رپورٹ درج ہوئی ،مگر پھر بھی پولیس نے پوری کوشش کی کہ مجرموں کو سزا نہ مل سکے مگر جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ صدمہ پہنچایا وہ عدالت کے جج کا رویہ تھا جو یہ کہہ رہے تھے کہ تین سال کی بچی کے ساتھ تو زیادتی ہو ہی نہیں سکتی ، جب منصف ہی پہلے سے فیصلہ تیار کئے بیٹھا ہو تو پھر انصاف کیسے مل سکتا ہے۔ بعد میں یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل ہوا اور وہاں یہ گھناﺅنا جرم ثابت ہو گیا اور مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی۔
تحفظ خواتین بل کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے خاندانی نظام ٹوٹ جائیگا ، مگر کون سا خاندان ٹوٹنے کا خطرہ ہے ؟ وہ خاندان یا گھر جو صرف اس لئے قائم ہے کہ وہاں بیوی پر تشدد کیاجاتا ہے اور اسے زبردستی گھر میں رکھا گیا ہے ، گھر آباد رہنا چاہیئے مگر عورت کو بے عزت کر کے اس پر ظالمانہ تشدد کر کے گھر آباد نہ کیا جائے۔ اس بل سے اسلام خطرے میں کیسے پڑ گیا؟ اسلام تو وہ ہے کہ جب ایک بیٹی نے راجہ داہر کے ظلم کے خلاف فریاد کی تو خلیفہ نے محمد بن قاسم کو لشکر کے ساتھ سندھ پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا۔ مگر آج لاکھوں بیٹیوں کے ساتھ ظلم پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، بیٹیوں کی ناک کاٹ دی جاتی ہے ، منہ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے ، گینگ ریپ کا نشانہ بنتی ہے ، جہیز نہ لانے پر جلا دیا جاتا ہے ، اور جو کوئی آواز اٹھائے تو اسے مغرب کا نمائندہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حوالے سے ہر چیز خراب نہیں بہت سی اچھی چیزیں بھی ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی اور ان میں سے کچھ چیزیں تو ایسی ہیں کہ جو میرے لیے حیران کن بھی تھیں ، عمومی طور پر خواتین کے حوالے سے کراچی یا لاہور کو ماڈرن سمجھا جاتا ہے جہاں بڑے پیمانے پر خواتین میدان عمل میں بھی ہیں اورن اسکے مقابلے میں خیبر پختونخواہ کو بہت زیادہ قدامات پسند اور ایک راویتی معاشرہ سمجھا جاتا ہے جہاں خواتین پابندیوں کا شکار ہیں ، مگر جب کبھی مجھے عوام کے ساتھ باہر پروگرام کی ریکارڈنگ کرنی پڑی تو لاہور اور کراچی کے مقابلے میں خیبر پختونخواہ کے لوگوں کا رویہ میرے ساتھ نہایت احترام کن تھا اور عام افراد نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا۔ اسکی وجہ وہاں کی معاشرتی تربیت ہے جس کا عکس خواتین کے ساتھ انکے رویئے میں جھلکتا ہے۔ تحفظ خواتین بل پیش ہونے سے کچھ لوگوں کے چہروں پر پڑے ہوئے نقاب بھی اتر رہے ہیں ، ان کے دلوں میں خواتین سے متعلق چھپا ہوا رویہ سامنے آ گیا ہے کیونکہ یہ بل خواتین پر ہونے والے تشدد کو روکنے کیلئے ہے اس بل سے وہی ڈرے گا جو خواتین پر تشدد کرنے میں یا تو ملوث ہے یا پھر اسے درست سمجھتا ہے۔

مزیدخبریں