لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈانفارمیشن سسٹم

Mar 09, 2016

محمد شہباز شریف

لینڈریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم کا 5مارچ کو افتتاح حقیقی طور پر پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے -150سے200سال قدیم اور متردک لینڈ مینجمنٹ سسٹم سے چھٹکارہ یقینا تبدیلی کا ایک نیا موڑ ثابت ہو گا -پرانے نظام نے ہمارے معاشرے کو کسی نہ کسی صورت میں یرغمال بنائے رکھا-صوبہ بھر میں شاید ہی کوئی ایسا گھرانہ ہو گا جو پٹوار کلچر سے پیدا شدہ مسائل سے محفوظ رہ پایا ہو ۔

میں نے حکومت پنجاب کے اس سنگ میل اقدام کو تبدیلی کا ایک تاریخی موڑ قرار دیا ہے -در حقیقت یہ نہ صرف ایک تاریخی بلکہ ایک تاریخ ساز اقدام ہے -کون ہے جو ہمارے دیہی معاشرے میں اراضی کی غیر معمولی اہمیت سے آگاہ نہیں ہے -اراضی کے ریکارڈ میں کی جانے والی بد انتظامی اور ہیر پھیرکئی دہائیوں پر محیط مقدمہ بازی اور نسل در نسل چلتی رہنے والی دشمنی کی بڑی وجوہات ہیں ۔اگرچہ میراآبائی لحاظ سے دیہی پس منظر سے تعلق نہیں تاہم میں نے اراضی کے تنازعات کی وجہ سے لوگوں پر گزرنے والی تکلیف اور اذیت کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا ہے -میں کافی عرصہ قبل ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کاشتکار بھائیوں کی خدمت کاکوئی بھی خواب پٹوار کلچر اور اس کے نتیجے میں لینڈ مافیا ،قبضہ گروپوں اور بد عنوان ملازمین کے درمیان بننے والے تعلق سے نجات حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ۔
جب میں نے اس عظیم مقصد کا بیڑا اٹھایا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ سفرایک حوصلہ شکن چیلنج سے بھرپور مشکل کام ہے لیکن اگر آپ عزم مصمم،نیک نیتی اور چٹان کی طرح مضبوط ادارہ لیکر چلیں تو کوئی ایسا چیلنج نہیں جیسے عبور نہ کیا جا سکتا ہو،میں کسی پوائنٹ سکورنگ میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ اگر آمر نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کو برطرف نہ کر دیا ہوتا تو عوامی خدمت کا یہ سفر بلا تعطل وزیر اعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں جاری رہتا اور دیگر عوامی فلاحی منصوبوں کی طرح لینڈ کمپیوٹرائزیشن کا یہ منصوبہ بھی طویل عرصہ ہی قبل مکمل ہو چکا ہوتا۔
اس وقت کے آمریت پر مبنی دور میں حکومت نے بہت بلندو بانگ دعوے کئے تاہم دیگر منصوبوں کی طرح لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ کے ہمارے اس منصوبے کو بھی پس پشت ڈا ل دیا گیا -یہی نہیں بلکہ ورلڈ بنک اور حکومت پنجاب کے فنانشل پارٹنر ر اس قدر مایوس ہوئے کہ انہو ںنے اس پارٹنر شپ کو خیر باد کہہ دیا -دوبارہ بر سر اقتدار آتے ہی ہم نے ایمانداری اور لگن سے اس منصوبے پر دوبارہ کام کا آغاز کر دیا اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ورلڈ بنک کو قائل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔
لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ اینڈ انفارمیشن سسٹم عوامی خدمت پر محیط ایک عظیم منصوبہ ہے -پنجاب کے عوام کو سہولیات کی فراہمی اور ان کا اطمینان ہمارے لئے سب سے بڑے سرٹیفکیٹ کی حیثیت رکھتا ہے-ورلڈ بنک نے اس منصوبے کے اعلی معیار،خود احتسابی کے خود کار نظام اور کسی بھی ممکنہ بد عنوانی کے خاتمے کے میکانزم کو جس انداز میں سراہا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے-ورلڈ بنک نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پنجاب میں اس عظیم کام کی تکمیل کے لئے بین الاقوامی سطح پر رائج عالمی معیار کی Best Practices کو اختیار کیا گیا ہے۔
آپ نے گزشتہ سالوں سے ”تبدیلی“ کا ذکر بہت سنا ہو گا۔ تبدیلی نعروں سے نہیں عمل سے آتی ہے۔ اس کے لئے جذبوں کا صادق ہونااور سمت سفر کا درست ہونا بہت ضروری ہے۔ محض نعروں اور الزام تراشی سے تبدیلی نہیں آتی۔ تبدیلی کے لئے خون جگر جلانا پڑتا ہے۔ اس کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتے ہیں۔ میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ آئیں اور پنجاب میں جاری ہونے والے اس نظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ شایدانہیں احساس ہو سکے کہ تبدیلی کس چیز کا نام ہے-میں یہاں اس موقع پر یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ پنجاب کی حکومت عوامی خدمت کے کسی بھی منصوبے کے لئے پاکستان کے دیگر صوبوں کی اعانت اور مدد کے لئے تیار ہے۔
میں پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کے افسران اور اہلکاروں کاشکریہ اداکرتا ہوں۔ یہ ان کی شب و روز محنت کا ثمر ہے کہ پنجاب بھر کے 25 ہزار مواضعات میں سے تقریباً 23ہزار دیہاتی مواضعات کا ریکارڈ ‘ ایک کروڑ صفحات سے زیادہ انتہائی پیچیدہ دستاویزات کو درست کرنے اور اغلاط سے پاک کرنے کے بعد جدیدترین طریقے سے کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے۔ اب پنجاب کے عوام کو اپنی قیمتی اراضی کی فردات حاصل کرنے اور ان کی خریدوفروخت کے معاملات کو مکمل کرنے کے لئے بوسیدہ پٹوار خانوں پردھکے نہیں کھانے پڑیں گے اور نہ ہی اراضی سے متعلق جائز معاملات کے حل کے لئے اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ برباد کرنے کی ضرورت ہو گی۔ آج پنجاب کے 36اضلاع اور 143تحصیلوں میں صبح 8بجے سے لے کر رات 8بجے تک تمام اراضی ریکارڈ سینٹرز پرشفاف طریقے سے خدمات فراہم کی جا رہی ہیں اور ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ مالکان اراضی کو ان کی ملکیت کے ثبوت اور خریدوفروخت کے لئے مسلسل فردات جاری ہو رہی ہیںاور ہر ماہ 50ہزار کے قریب لین دین کے معاملات انتقالات کی صورت میں شفافیت کے ساتھ مکمل کئے جا رہے ہیں۔
میں یہاں اس بات کا بھی اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے نہ صرف پنجاب کے 90فیصد دیہاتی مواضعات کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر کے محفوظ کیا ہے بلکہ اس ریکارڈ میں پہلے سے موجود تقریباً 50 لاکھ اغلاط کا بھی ازالہ کیا گیا ہے۔ ہماری عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات قتل و غارت‘ لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد اور خاندانی دشمنیاں محض زمین کے ریکارڈ میں گڑ بڑ کرنے اور فراڈ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس سسٹم کی بدولت ماضی کی ان اغلاط کی تصحیح کر دی گئی ہے۔ حقائق گواہ ہیں کہ اس نظام کے بعد سے زمینوں سے متعلق مقدمہ بازی میں ایک واضح کمی سامنے آئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ نظام آنے والے دنوں میں دیہی علاقوں کے عوام کو روایتی مقدمہ بازی اور نسلوں تک چلنے والی دشمنیوں سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ عوام کی جان و مال اور عزت کا تحفظ کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور یہ امر بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے خصوصاً دیہی علاقوں میں یہ تینوں عناصر یعنی جان ‘مال اور عزت کسی نہ کسی طریقے سے ملکیتی اراضی سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کے اس نظام سے حکومت نے محروم انصاف افراد کی دادرسی کا ایک ایسا نظام تشکیل دیا ہے جسے آنے والا مورخ سنہری حروف میں لکھے گا۔
اس نظام کی تبدیلی پر صرف پرانے نظام سے مفادات حاصل کرنے والے عناصر ہی دل گرفتہ نہیں بلکہ یہ نیا نظام اس طبقے کی جبینوں پر بھی شکنوں کا باعث بنا ہے جسے عرف عام میں اشرافیہ کہا جاتا ہے اور جو تھانے کچہری سے لے کر پٹوار خانے تک وی آئی پی سلوک کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ اس نئے نظام کی بدولت اب سب کو ایک ہی قطار میں کھڑے ہو کر اراضی کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنا ہو گی۔
اس نظام کا ایک طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ اس سے وراثتی معاملات میں موجود سقم دورہو گئے ہیں اور اب خواتین کو یہ بھی اختیار مل گیا ہے کہ وہ بآسانی اپنی اراضی کا ریکارڈ چیک کر سکتی ہےں۔
دنیا کا کوئی نظام خامیو ںسے پاک نہیں ہو سکتا-مذموم مقاصد کیلئے سسٹم کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جا سکتی ہے چنانچہ اس نظا م میں اغلاط کی نشاندہی اور غلطیوں کی تلافی اور ازالے کا نظام رکھا گیا ہے۔اکا دکا مشکلات آسکتی ہیں تاہم اس نظام میں کرپشن کیلئے حد برداشت صفر ہے -میں اس نظام کورول ماڈل بنانے اور اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کیلئے پر عزم ہوں اور عام آدمی کی فلاح اور خوشحالی ہی مجھے آگے بڑھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔

مزیدخبریں