رواں برس اقتصادی رابطہ کمیٹی کی سربراہی پاکستان کو منتقل ہو گئی۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقد ہونیوالا اجلاس عالمی سطح پر پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے جس میں ترکی و ایران سمیت خطے کے تمام قابل ذکر ممالک کے سربراہان کی شرکت پاکستان سے متعلق بھارت کے پھیلائے ہوئے منفی تاثر کا جواب ہے جو اس نے دسمبر 2016ءمیں امرتسر (بھارتی پنجاب) میں منعقد ہونےوالی ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کے دوران پاکستان کےخلاف پیدا کرنے کی کوشش کی۔ قبل ازیں اکتوبر 2016ءمیں گوا میں منعقد ہونے والی BRICS کانفرنس کے دوران بھی بھارت نے کانفرنس کے ایجنڈے کو پاکستان کےخلاف اجلاس کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی جسے چین نے سختی سے رد کرتے ہوئے ناکام بنا دیا۔ صرف بھارت ہی نہیں امریکہ بھی جنوبی ایشیاءمیں محدود ہوتے ہوئے اپنے کردار اور افغانستان میں قیام امن کے مسئلہ پر چین اور روس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر خاصا مضطرب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ای سی او اقتصادی تعاون تنظیم کے پاکستان میں منعقد ہونیوالے اجلاس اور اسکے مشترکہ اعلامیہ پر رائے دینے سے تو گریز کیا البتہ افغانستان میں نیٹو کے سربراہ امریکی جنرل جان نکلسن نے بیان جاری کر دیا کہ داعش‘ ازبک اور پاکستانی طالبان رسمی اتحاد قائم کر چکے ہیں جو امریکہ کیلئے خطرے کا سبب ہیں۔ اس سے ایک روز قبل امریکہ میں نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کہہ چکے تھے کہ ”پوری دنیا“ سے داعش کا خاتمہ کرینگے۔ اپنے اس خطاب میں ٹرمپ نے پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف دہشت گردوں کی موجودگی کا ذکر کیا لیکن پاکستان میں گزشتہ 15 برس سے جاری دہشت گردی اور اس کے خلاف پاکستانی فوج کے کامیاب آپریشن کا ذکر نہیں کیا جس کی وجہ سے پاک افغان سرحد تک پاکستانی قبائلی علاقہ 95 فیصد دہشتگردوں سے نہ صرف پاک کیا جا چکا ہے بلکہ وہاں تیزی سے تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے۔ سڑکوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں۔ ہسپتال و تعلیمی اداروں کے بہت سے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں باقی پر تیزی سے کام جاری ہے۔ اسی کامیاب آپریشن ہی کی بدولت پاکستان کے قبائلی علاقوں سے دہشتگردوں کی اعلیٰ قیادت بھاگ کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی جو اب وہیں سے بھارت و افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی) و بھارت کی سرپرستی میں پاکستان میں خودکش دھماکوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔امریکی حکام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ این ڈی ایس کا سابق سربراہ رحمت اﷲ نبیل افغان صدر یا حکومت سے زیادہ بھارت کا ہمدرد اور افغانستان میں بھارتی مفادات کا نگران تھا۔ بھارتی وزیراعظم کے خصوصی مشیر اجیت کمار دول اور رحمت اﷲ نبیل کے گٹھ جوڑ سے نہ صرف پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ حاصل ہوا افغانستان میں داعش کو قدم جمانے اور عراق سے افغانستان تک رہنمائی میں بھی یہی گٹھ جوڑ ہی کارفرما رہا۔ دسمبر 2014ءمیں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشتگردی کے حملے میں بھی اسی گٹھ جوڑ کے ملوث ہونے کا بڑا چرچا رہا جس کیخلاف پاکستان کے م¶ثر احتجاج کے باوجود رحمت اﷲ نبیل سے استعفیٰ لینے میں افغان صدر اشرف غنی کو ایک برس لگ گیا۔ 10 دسمبر 2015ءکو مستعفی ہونے کے بعد اپنی الوداعی تقریب کے موقع پر رحمت اﷲ نبیل نے پاکستان کے خلاف جو نفرت پر مبنی دھمکی آمیز تقریر کی۔ اس پر امریکی تجزیہ کار بھی حیران تھے اور سمجھتے تھے کہ نبیل کے ہٹائے جانے کے باوجود افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کرنےوالے اپنا کام جاری رکھیں گے کیونکہ بھارتی وزارت دفاع اور این ڈی ایس میں بھارت اپنی جڑیں بہت گہری کر چکا ہے۔ اس سب کے باوجود پاکستان میں اقتصادی رابطہ تنظیم کے اجلاس کے ایک روز بعد پاکستانی قبائلی علاقہ کرم ایجنسی میں طویل عرصہ کے بعد امریکی ڈرون حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ نے خطے میں ایک نئے بیانیے کے ساتھ نئی جنگ کا آغاز کر دیا ہے جس کا اشارہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں دیا تھا۔ امریکہ جب نائن الیون کے بعد 2001 ءمیں افغانستان پر حملہ آور ہوا تو طالبان امریکی عوام ہی نہیں ترقی یافتہ مغربی تہذیب اور وہاں بسنے والوں کے خطرناک دشمن قرار پائے جن کے خاتمہ کیلئے افغانستان پر قبضہ ضروری قرار دیا گیا تھا۔ 2005 ءمیں طالبان کو ایک طرف کردیا گیا اور انکی جگہ القاعدہ بڑی دشمن ٹھہری۔ بعدازاں جب تک امریکہ میں اوبامہ کی حکومت رہی القاعدہ پس پشت چلی گئی اور ”داعش“ اسلامی انتہا پسندوں کی صورت میں دنیا کےلئے خطرہ بن کر ابھری۔ یہ وہی داعش ہے جسے امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران داعش کو اوبامہ حکومت خصوصاً ہیلری کلنٹن کی پیداوار قرار دیتے رہے ہیں لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد یکم مارچ کو امریکی صدر ٹرمپ کا داعش کے خاتمہ کیلئے اعلان اور اس کی پاک افغان سرحد کے آرپار موجودگی کاحوالہ نشاندہی کرتا ہے کہ آنیوالے چند ماہ میں پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے ایسی کارروائیاں ضرور سامنے آئیں گی جو موجودہ امریکی انتظامیہ کے بیانات و خدشات کی تصدیق کر سکیں اور چنائی میں قائم مراکز کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کا اعتراف کرنیوالی دہشت گرد جماعت کی جگہ داعش کے اعتراف سامنے آئینگے۔ غالباً یہی خدشات ہیں جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے پاک فوج نے ملک بھر میں بلاتفریق آپریشن ردالفساد کا فیصلہ کیا جس کیلئے گھر گھر تلاشی کا آغاز ہو چکا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ سیاسی شخصیات اگر فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے مسئلے پر سودے بازیوں میں مصروف ہیں تو کچھ نے آپریشن ردالفساد کے مسئلے پر ابہام پھیلانے اور صوبائی تعصب کو ہوا دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پنجاب میں آپریشن کے حوالے سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے مذکورہ آپریشن صوبہ کے پی کے یا قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان پٹھان بھائیوں کےخلاف کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ تلاشی یا چھان بین کی وجہ افغانستان سے آ کر پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی کھوج کے علاوہ ان عناصر کو ڈھونڈنا ہے جو دہشتگردوں کے معاون و سہولت کار ہو سکتے ہیں۔ تلاشی کے اس عمل کو پختون بھائیوں کےخلاف قرار دینا ملک کی سلامتی کیخلاف سازش کے مترادف ہے۔ ان حالات میں ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی صورتحال پر نظر رکھتے ہوئے کسی بھی مشکوک صورتحال سے قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو آگاہ کرے اور حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ عوام میں پولیس کا اعتماد بحال کرنے کیلئے حقیقی اقدامات بروئے کار لائے تاکہ ہر فرد بلاخوف و خطر مشکوک معاملات سے متعلق بروقت اپنے خدشات پولیس تک پہنچا سکے اور اسے یقین ہو کہ اسکی دی گئی اطلاع پر پولیس الٹا اسے ہراساں نہیں کرےگی۔
”آپریشن ردالفساد“ میں کامیابی عوام کے تعاون سے مشروط ہے
Mar 09, 2017