عوامی جذبہ پی ایس ایل کے تناظرمیں

کرکٹ کا کھیل پاکستانی عوام کے دلوں میںکیا مقام رکھتاہے اس کا مظاہرہ ساری دنیا نے گزشتہ اتوار کو لاہور میں قذافی سٹیڈیم میں دیکھا، اس کھیل کے ذریعہ پاکستانی قوم نے دنیا بھر کو امن،دوستی،اتحاد ویگانگت اور جوش وولولے کا ایک یادگار پیغام دیاہے جس کا برملا اعتراف ساری دنیا نے کیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کا انعقاد بھی پہلے ایڈیشن کی طرح متحدہ عرب امارات میں لیاگیا مگر گزشتہ برس فائنل کے موقع پر یہ اعلان کیاگیا تھا کہ2017ءمیں پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروایاجائے گا۔سال گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا اور جب اس سالPSL کے میچز متحدہ عرب امارات میں شروع ہوئے تو لاہور میں فائنل میچ کے تذکرے بھی شروع ہوگئے جوں جوں فائنل کا وقت قریب آتا گیا جوش وخروش بڑھتا گیا مگر13فروری کو لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے اور اس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے حملوں نے غیریقینی کی ایک ایسی صورتحال پیدا کردی کہ فائنل میچ کا انعقاد تقریباً ناممکن نظرآنے لگا۔ بعدازاں فروری کے آخری ہفتے میں لاہور میں دہشت گردی کا ایک اور واقع ہوا جس کے بعد صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی۔ اس عرصے کے دوران میڈیا میں بحث وتمحیض کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہر کسی کو اپنی رائے دیکھنے اور سننے کو ملی اور پاکستان بین الاقوامی میڈیا اور خبروں کا بھی مرکز بنا رہا، PSL کھیلنے والی پانچ ٹیموں کے غیرملکی کھلاڑیوں نے بھی فائنل میچ لاہور میں منعقد ہونے کی صورت میں اپنی عدم دستیابی سے آگاہ کردیا اور چونکہ غیرملکی کھلاڑی ہی اس طرح کے ٹورمانٹس کے روح رواں ہونے میں توظاہر ہے ان کے بغیر منعقد ہونے والا میچ بھی وہ حیثیت نہیں رکھتا مگر اس ساری صورتحال میں امید کی کرن PSL انتظامیہ، حکومت اور پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کا وہ عزم تھا کہ ہم دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والے نہیں اور فائنل میچ ہرصورت لاہور میں ہی ہوگا عوام کا جوش وخروش تو دیدنی تھا مگر حیران کن طور پر بعض عوامی حلقے اور عوام کی بھرپور حمایت کا دعویٰ کرنے والے بعض سیاستدان بھی فائنل میچ کا لاہور میں انعقاد کروانے کے مخالف تھے، ان میں پیش پیش کرکٹ سے شہرت پانے والے سیاستدان جناب عمران خان تھے جبکہ آصف زرداری نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا۔ ظاہرا تو اس مخالفت کی وجہ عوام کے تحفظ اور سیکورٹی کی صورتحال کو بنایاگیا مگر اس کے درپردہ اجل کارفرما عوامل صرف سیاسی مخالفت اور ذاتی مفادات ہے کم ازکم عمران خان سے ایسی سوچ کی توقع بالکل نہیں تھی کیونکہ ان کی شہرت اور پہچان کی اصل وجہ تو بہرحال کرکٹ ہی ہے ان کے بیانات سے یقیناً عوام کو مایوسی ہوئی اور دنیا بھر میں ہمارا منفی امیج اجاگر ہوا، پاکستان کے حالات کا شام اور عراق سے موازنہ کرنا انتہائی غیرذمہ دارانہ اور قابل مذمت بیان ہے اس کے برعکس عوام اور میڈیا کی بھرپور اکثریت نے حکومت کے اس فیصلے کو سراہا۔ پنجاب حکومت کی زیرنگرانی پاک فوج، رینجرز، پولیس اور انتظامیہ نے انتہائی شاندار انتظامات یقینی بنائے جس کی وجہ سے اس فائنل میچ کا کامیاب انعقاد ممکن ہوا، پشاور اور کوئٹہ کی ٹیموں نے فائنل کےلئے کوالیفائی کیا۔ پشاور کے غیرملکی کھلاڑیوں نے اپنے کپتان ڈیرن سیمی کی قیادت میں تمام خدشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی ٹیم کی نمائندگی کی جس کا سہرا فرنچائز مالک جناب جاوید آفریدی کو بھی جاتا ہے، کوئٹہ کی ٹیم کے غیرملکی کھلاڑی شریک نہیں ہوئے مگر ان کی جگہ متبادل غیرملکی کھلاڑیوں نے لی، فائنل میچ کے موقع پر عوام کا جوش وخروش اور نظم وضبط دیدنی تھا۔ پوری دنیا کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر پاکستان سپر لیگ کا فائنل چھایا رہا، دنیا بھر میں پاکستان کا انتہائی مثبت امیج ابھر کر سامنے آیا، تمام خدشات کے برعکس ماحول نہ صرف پرامن رہا بلکہ انتہائی سازگار بھی، پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کا سفر اب شروع ہوگیا ہے جس کی بدولت ایک انٹرنیشنل الیون کا ستمبر میں دورہ بھی متوقع ہے ہمارے دشمن اور ان کے حواری دہشت گرد یقیناً شکست سے دوچار ہوئے ہیں اوراس میچ کے ذریعے پوری دنیا کو ایک واضح پیغام کیاہے کہ یہ چند مٹھی بھر دہشت گردی ہماری ترقی اور خوشحالی کا سفر نہیں روک سکتے، پاکستانی قوم نے گزشتہ پندرہ سال سے جاری دہشت گردی کی اس جنگ میں بے مثال قربانیاں دے کر دنیا کے سامنے عزم وحوصلے اور بہادری کو ثابت کیا ہے پاک فوج نے اس جنگ میں ایسی بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کی پوری دنیا معترف ہے یہ صرف ایک میچ نہیں تھا بلکہ دنیا کے سامنے ہمارے حوصلے، جذبے اور عزم واستقلال کا عملی مظاہرہ تھا۔ جہاں ایک طرف حکومت، فوج اورPSLکی انتظامیہ اس سلسلے میں بھرپور مبارکباد کی مستحق ہے تو دوسری طرف وہ عناصر جواس ایونٹ کی مخالفت کررہے تھے چاہے وجہ کوئی بھی ہو انہیں بھی اپنی سوچ اور نظریئے پرنظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد ہر چیز پر حاوی رہنا چاہیے، ذاتی عناصر اور مفاد پر مبنی رویئے اپنے لئے تو نقصان دہ ہوتے ہی ہیں ان سے قوم کے اجتماعی مفادات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے، اگر جناب عمران خان تمام مخالفت کو ایک طرف رکھتے ہوئے اتوار کے دن قذافی سٹیڈیم میں موجود ہوتے تو نہ صرف ایک قومی خدمت سرانجام دیتے بلکہ عوامی جوش وجذبے اور مقبولیت کا بھی محور ہوتے۔ بحرحال مجموعی طور پر ایک تاریخی دن تھا جس سے ملک کے وقار اور نیک نامی میں بہت اضافہ ہواہے جس کے میڈیا کا کردار بھی لائق تحسین ہے امید کرنی چاہیے کہ یہ سوچ مزید پروان چڑھے گی اور آنے والے دنوں میں نہ صرف ہمارے کھیل کے میدان آباد ہونگے بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں بہتری اور ترقی دیکھنے کو ملے گی۔

ای پیپر دی نیشن