یہ وہ زمانہ تھا جب بھارت کی طرف سے شہری آبادی پر شدید فائرنگ اور گولہ باری کی جاتی تھی۔ گاڑیوں کی آمدورفت بند تھی، عوام میلوں پیدل چل کر ہجیرہ آتے اور اپنا سودا سلف خرید کر واپس پیدل جاتے ۔بیماری کی صورت میں حالات مزید ابتر ہوجاتے حالانکہ پاک فوج بھی شہر ی آبادی کی بھرپور مددکرتی اور مفت دوائیاں فراہم کرتی مگر شدید بیمار مریضوں کے لئے بہت مشکلات ہوتیں۔ ہم سے قبل جو یونٹ تھی وہ اپنی چند شہادتوں کی بنا پر ایس او پیزکی مکمل پاسداری کرتی اور یوں دشمن پر فائر کھولنے میں کنجوسی کرتی ۔ روزانہ کے حساب سے فائر کی گئی گولیوں کا حساب دیناپڑتا تھا لہٰذا جانے والی یونٹ کسی قسم کا رسک لینے کو تیار نہ تھی۔ یہ صورتحال ہمارے لئے مشکل اور ناقابل قبول تھی۔ دوسری جانب اوپر سے بھی دبائو تھا کہ فائر کو کنٹرول کیا جائے ۔ جب ہم تینوں نے مکمل کمان سنبھال لی تو ہم نے چوتھے کمپنی کمانڈر ظفر ایاز خٹک سے مل کر ایک منصوبہ ترتیب دیا ۔ منصوبہ یہ تھا کہ کم فائر کر کے زیادہ سے زیادہ گولہ باردو کی ر پورٹ دی جائے ۔ اس طرح بچا ہوا گولہ بارود جمع کر کے کسی ایک موقع پر دل کھول کر دشمن پر ایسی کاری ضرب لگائی جائے کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگائے۔ ماتحت جوانوں کی دلیری و بہادری کا انحصار صرف اپنے بالا آفیسر تک محدود ہوتا ہے۔اگرآفیسر بزدل نکلے تو تمام ماتحت بھی بزدلوں میں شمار ہوتے ہیں اور اگر آفیسر بہادر اور دلیر ہو تو ماتحت جوان جان کی بازی لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے ۔ یوں ہم نے ایک رات منصوبے کے تحت اپنے تمام اعتماد والے ٹیلی فون آپر یٹروںکو فیلڈ ٹیلی فون کی نگرانی کے لئے بٹھادیا اور انہیں ہدایت کی کہ اوپر سے پوچھ گوچھ کی صورت میں رپورٹ دیں کہ دشمن نے شدید فائر کھول دیا ہے۔ میری کمپنی کے پاس 12.7اور 14.5ایئر ڈیفنس گنیں بھی تھیں جن سے فائر کرنے کی بالکل بھی اجازت نہ تھی کیونکہ ان کاایمونیشن بہت مہنگا ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے میرے کمپنی ہیڈکوارٹر سے مقبوضہ کشمیر کا شہر پونچھ اور اس سے ملحقہ جلاس کینٹ نظر آتے تھے۔ جلاس کینٹ ہماری ایئرڈیفنس گنوں کی پہنچ میں تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ تمام سیکٹر کو کھول دیا جائے اور بٹالین ہیڈکوارٹر میں یہ ظاہر کیا جائے کہ دشمن نے فائری حملہ کر دیا ہے لہٰذا اب ہمیں بھی بھرپور جوابی کاروائی کی اجازت دی جائے ۔اگر اجازت مل گئی تو پھر تمامایمونیشن کاحساب کتا ب آسان ہو جائے گا مگراگر اجازت نہ ملی تو پھر رفتہ رفتہ فائر کئے گئے ایمونیشن کا حساب چکتا کیا جائے گا۔ دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ دشمن کی پوسٹوں کے علاوہ زیادہ توجہ جلاس کینٹ پر دی جائے تا کہ دشمن کا ہیڈکوارٹر تباہ ہو یا وہ بھی ہماری شہری آبادی کی طرح نیند کا جھونکا نہ لے سکے۔ ایل اوسی پر رہائش پذیر ہماری شہری آبادی انتہائی دلیر ہے۔ انہوں نے گولیوں کی گونج اور توپوں کی تھرتھراہٹ میں آنکھ کھولی ہوتی ہے اور دوطرفہ فائرنگ کے دوران چھپتے چھپاتے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہوتا ہے ۔ لہٰذا وہ اُسی فوجی یونٹ کو پسند کرتے ہیں جو قانون اور ایس او پیز کو بالائے طاق رکھ کر دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ ہرانفنٹری یونٹ کے پاس 81 ایم ایم موٹر گنیں ہوتی ہیں جن کو انفنٹری یا پیدل فوج کا توپ خانہ کہا جاتا ہے۔ یہ موٹرگنیں کمانڈنگ آفیسر کے حکم پر ہی کارروائی کر سکتی ہیں۔مگر ہم نے موٹر پلا ٹوں کے کمانڈر نائب صوبیدار امانت علی ( جو اب اس دنیا میں نہیں)کو بھی اس سازش میں شریک کر لیا ۔ نائب صوبیدار امانت نے موٹر گنوں کو اپنی جگہ سے تبدیل کر دیااور’’ نوکری جاتی ہے تو جائے ‘‘کا نعرہ لگا کر ہمارے ساتھ ’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ میں شامل ہو گیا۔اُس نے متبادل جگہ پر اپنی موٹر گنیں تعینات کیں اور رخ جلاس کینٹ کی جانب موڑ دیا۔ یہ اگست 1996ء کی رات تھی۔ رات تقریباً ساڑھے 9بجے کے بعد کا وقت تھا جب ہم نے بِسمِ اﷲ کرنی تھی۔ جب ہم نے یہ سمجھا کہ تمام شہری آبادی اپنے اپنے گھروں میں پہنچ چکی ہے تو اچانک ہم نے دشمن کی تمام پوسٹوں، جلاس کینٹ اور ان تمام مشتبہ علاقوں پر فائر کھول دیا۔(جاری ہے)