ججوں کا بولنا اور فوجی افسروں کا فیض آباد میں ہزار ہزار کے لفافے تقسیم کرنا اختیارات سے تجاوز ہے‘ اعتزاز احسن

Mar 09, 2018

اسلام آباد(وقائع نگار+ صباح نیوز) سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ کسی وزیراؑعظم کے پاس غیر ملکی اقامہ کی موجودگی انتہائی سنگین جرم ہے عدلیہ نے نرم فیصلہ کیا ہے اگر ڈونلڈ ٹرمپ کسی غیر ملکی کمپنی کا ملازم نکل آئے نہ صرف مواخذہ ہو گا بلکہ جیل بھی جائے گا ۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے نتیجہ میں یا سینیٹ کی ساکھ بڑھ جائے گی یا میرے ہموطنو کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہو گی سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے کے الزام کے بعد پاکستان کے آٹھ آرمی چیف رہے میرے خلاف کیوں نہیں تحقیقات کی گئیں ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعرات کو سینیٹ میں اپنے الوداعی خطاب میں کیا۔ چودھری اعتزازاحسن نے کہا کہ چار فوجی آمروں کے خلاف جدوجہد کا اعزاز حاصل رہا۔ انہوں نے کہاکہ فرحت اللہ بابر کے گذشتہ روز سینیٹ میں خطاب سے مکمل طور پر متفق ہوں فوج اور عدلیہ کی مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے فوج کو تالے آزمائی نہیں کرنی چاہیے اور نہ عدالت کو مداخلت کرنی چاہیے یہ بھی درست کہا کہ ججز اگر شعر کہیں گے تو اس سے خوف آتا ہے میں مکمل طور پر فرحت اللہ بابر کے بیان سے متفق ہوں مگر اضافی بات یہ ہے شاید مختلف بھی ہے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جب ہم اداروں کے دائرہ کار کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے دائرہ کار میں رہنا چاہیے خود احتسابی کرنی چاہیے دوسروں کی غلطیاں نکالنے سے پہلے اپنا احتساب کریں یہ بات درست ہے کہ ججز کی زبان نہیں بلکہ قلم بولتا ہے اس حوالے سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے اور کسی فوجی افسر کو فیض آباد چوک میں کھڑے ہو کر ہزار ہزار روپے کے لفافے تقسیم کرنے چاہیں یہ اختیارات سے تجاوز ہے‘ پتھر وہ مارے جس نے گناہ نہ کیا ہو ہم عدلیہ پر بہت تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاناما کی بجائے اقامہ پر نکالا کیوں نااہل قرار دیا اسی عدلیہ نے تو حدیبیہ ملز کا بھی فیصلہ کیا ہے اس کو رد کیوں نہیں کرتے کیا یہ رعایت انکے لیے قابل قبول ہے۔ اورنج ٹرین کے بارے میں عدالت عظمٰی کا فیصلہ آیا چار سو سالہ ورثہ شالیمار باغ چوبرجی بھاڑ میں جائے ٹرین چلے گی اسی عدلیہ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا‘ احد چیمہ کی گرفتاری پر وزیراعلٰی پنجاب کے دفتر میں قلم چھوڑ ہڑتال کا فیصلہ کیا گیا‘ 21گریڈ کے افسر سلمان فاروقی، عثمان فاروقی ، سابق چیف سیکرٹری سعید مہدی گرفتار ہوئے چار سال جیل میں رہے اس وقت تو کوئی قلم چھوڑ ہڑتال نہیں ہوئی‘ پنجاب کیا کوئی انوکھا علاقہ ہے پنجاب والوں کے نخرے کیا بہت ہی زیادہ ہیں‘ دفاتر کو تالے لگانے کا فیصلہ بھی سی ایم پنجاب کے دفتر میں ہوا کیا یہ بغاوت نہیں ہے۔عدالت نے سابق وزیر اعظم کے حوالے سے نرم ہاتھ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے جلسوں میں بیانات برملہ فوج کو مداخلت کی دعوت دینے کا ماحول پید اکرنے کے مترادف ہے میرے ہموطنو کی تقریر کا جواز پیداکیا جا رہا ہے۔اپوزیشن لیڈر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اب پاکستان میں مذہب واریت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ اعتزازاحسن نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے جو کہانیاں سامنے آرہی ہیں اللہ کرے وہ سب غلط ہوں الیکشن کمیشن نے نوٹسز بھی جاری کر دئیے مگر کوئی ثبوت نہیں ملے گا کیونکہ اس قسم کی کرپشن کا ثبوت کوئی نہیں چھوڑتا کیا کوئی دس کروڑ روپے لیکر اسکی رسید دے گا اور کیمرے کے سامنے ایسا کرے گا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے نتیجے میں یا ہم ایوان بالا کی ساکھ کو بڑھا رہے ہوں گے یا میرے ہموطنو کے لیے گرائونڈ بنا رہے ہوں گے۔ انہوں نے سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے کے الزامات کی بھی ایک بار صفائی پیش کی اور کہا کہ میرا قصور یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی ہدایت پر دراب پٹیل کو عالمی عدالت انصاف کا جج بنوانے کے لیے نیو دہلی گیا تھا کیونکہ بھارت اپنے جج کو لا رہا تھا میں نے نیو دہلی جا کر راجیو گاندھی سے بات کی بھارت دراب پٹیل پر آمادہ نہ ہوا ہم دراب پٹیل کو عالمی عدالت انصاف کا جج اسلیے بنوانا چاہتے تھے کیونکہ اس نے بھٹو قتل کیس میں مخالفت کی تھی۔
اسلام آباد(وقائع نگار) سینٹ سے سبکدوش ہونے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز نے کہا ہے کہایوان بالا کے رکن کی حیثیت سے خوشگوار یادیں سمیٹ کر جا رہے ہیں، دعا ہے پاکستان ترقی کرے، خوشحال اور عوام بھی خوشحالی سے ہمکنار رہیں، پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے میں بہت پر امید ہیں، پاکستان کے لئے کسی ایک ادارے، مسلک یا قومیت نے قربانیاں نہیں دیں، سب کی قربانیاں اس میں شامل ہیں، ہمیں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر ملک اور عوام کے لئے سوچنا چاہیے۔ جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس میں الوداعی خطاب میں سینیٹر ہری رام نے کہا کہ ہرصوبے کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان بالا کے رکن کی حیثیت سے وہ خوشگوار یادیں سمیٹ کر جا رہے ہیں، تمام ساتھیوں اور سینٹ کے عملے اور چیئرمین کے تعاون پر شکرگزار ہوں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ایوان بالا کے رکن کی حیثیت سے انہیں خوشگوار تجربہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک کے منصوبوں سے چاروں صوبوں کو فائدہ ہو گا، سی پیک کے حوالے سے ہماری کمیٹی اپنا کام مکمل نہیں کر سکی جس پر افسوس ہے۔ میں پاکستان کا مستقبل روشن دیکھ رہاہوں، ہمیں بے روزگاری، غربت، جہالت اور دیگر مسائل کے خاتمے کے لئے مل کرکام کرنا چاہیے۔ سنیٹر روبینہ عرفان نے کہا کہ اس معزز ایوان کا رکن منتخب ہونا ان کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے، یہاں ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے، ہماری دعا ہے کہ پاکستان ترقی کرے، خوشحال اور عوام بھی خوشحالی سے ہمکنار رہیں، سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ چھ سال ہم نے یہاں عزت، احترام اوروقار کے ساتھ گزارے ہیں لیکن عوام اور اصولوں کی خاطر ہمیشہ آواز اٹھائی اور سچ بات کی۔سنیٹر مختار عاجز دھامرہ نے کہا کہ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کمیٹی آف دی ہول کا تصور کرا کر پارلیمانی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے اور این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو زیادہ وسائل فراہم کئے جانے چاہئیں۔ سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی قیادت میں ایوان بالا نے پارلیمانی تاریخ میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور پھر سینٹ کا رکن رہے ہیں، یہ ان پر پارٹی قیادت کے اعتماد کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سینٹ میں رہیں یا نہ رہیں ملک کی ترقی اور عوام کی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

مزیدخبریں