تعلیم عام

ملک میں اس وقت تعلیمی اداروں خصوصاً سکولوں کی جانب سے داخلہ، وردی اور کتب مفت کی تشہیر کر کے ہر صورت میں طلباء و طالبات اور ان کے والدین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ان کا بزنس بڑھ سکے تعلیمی اداروں میں یہ چیزیں تو فری ہیں اگر کچھ نہیں فری تو وہ ہے طلباء اور طالبات کا دماغ جس پر اتنا بوجھ ڈالا جارہا ہے کہ بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں
ملک میں جس تیزی کے ساتھ تعلیم عام ہورہی ہے اتنی ہی تیزی کے ساتھ اخلاق،لحاظ اور تربیت کی کمی دیکھنے میں آرہی ہے اب تعلیمی اداروں کا انتخاب بھی اس کی تعلیم و تربیت کو نہیں بلکہ سٹیٹس دیکھ کر کیا جاتا ہے کہ کس کس خاندان کے لوگ یہاں پر زیر تعلیم ہیں ویسے تو انسان پوری زندگی ہی طالب علم رہتا ہے لیکن تربیت اگر ایک وقت مقرر پر ہوجائے تو والدین،اس بچے کا خاندان، محلے دار اور وہ بچہ خود پرسکون رہتا ہے
تین عورتوں والی کہاوت ہمارے معاشرے کی مکمل طور پر عکاسی کر رہی ہے کہاوت کے مطابق عورتیں کنویں پر پانی بھر رہی تھیں اور دو عورتیں اپنے بچوں کو اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے حوالے سے شیخی بگھار رہی تھیں ایک نے کہا کہ اس کا بیٹا ان دنوں چھٹیوں پر گھر آیا ہوا ہے وہ لاہور کے ایک انگلش میڈیم سکول میں زیر تعلیم ہے دوسری نے کہا کہ اس کا بیٹا بھی انگلش میڈیم سکول میں تعلیم حاصل کررہا ہے اتفاق سے انگلش میڈیم میں زیر تعلیم یہ بچے اپنی ماؤں کے قریب ہی کھیل کود میں مصروف تھے اور ان کے علم میں تھا کہ ان کی مائیں کنویں سے پانی بھر کا گھر لے جانے کی سعی کررہی ہی ہیں مگر انہوں نے ان کی کسی بھی طرح مدد نہ کی تیسری عورت کا بیٹا تھوڑی دیر بعد وہاں پہنچا یہ عورت غریب تھی اور اپنے بیٹے کو کسی اچھے سکول میں داخلہ نہ دلوانے پر دل گیر بھی تھی مگر اس وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کے پانی والا برتن اس کے بیٹے نے ماں سے پکڑ کر خود اپنے سر پر اٹھا لیا اور ماں سے کہا کہ چل ماں گھر کو چلیں عورت اپنے بیٹے کی تمیز و ادب دیکھ کر خوشی مارے چلا اٹھی کہ دیکھو میرا بیٹا تو ایک مدرسے میں زیر تعلیم ہے۔ہم لوگ اپنے بچوں کو صرف اور صرف مہنگے تعلیمی اداروں میں داخل کروانے پر ہی اکتفا کررہے ہیں اور ان کو اداروں کے حوالے کر کے لوٹ آتے ہیں ہم اس بات سے پریشان ضرور ہیں کہ ہمارے بچے بڑی تیزی کے ساتھ اخلاق سے عاری ہوتے جارہے ہیں مگر بطور والدین اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ہم کیوں خصوصی طور پر اپنے بچوں کے لئے روزانہ کی بنیادوں پر وقت نکال کر ان کے اساتذہ اور بچوں سے تعلیمی مصروفیات اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے گفتگو نہیں کرتے۔
تعلیمی اداروں کا کردار لگتا ہے صرف طلباء اور طالبات سے پیسے بٹورنا رہ گیا ہے اور ملک میں ہاائیرایجوکیشن کے کئی سرکاری تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو سرکاری نہیں بلکہ پرائیویٹ اداروں کی طرز پر فیس وصول کررہے ہیں اور ان تعلیمی اداروں کو فیسوں میں اضافہ سے روکنے کے لیے کوئی قابل عمل طریقہ کار موجود نہیں ہے اگر سرکار کی جانب سے فیسوں میں اضافہ بارے پوچھ بھی لیا جائے تو پہلے سے ہی اخراجات میں اضافہ جیسے بہانے تراش رکھے ہوتے ہیں یہی حالت پرائیویٹ سکولوں اور کالجز کی ہے جو شتر بے مہار ہیں اور ان کی جانب سے فیسوں میں اضافہ کو روکنا تو اب حکومت کے بس کی بھی بات نظر نہیں آتی حالانکہ متعدد مرتبہ والدین فیسوں میں اضافہ کے خلاف سڑکوں پر آچکے ہیں مگر ان کہ یہ سعی لاحاصل ثابت ہوتی ہے۔
پینتالیس سال تک بطور استاد محکمہ تعلیم کی خدمت کی اور ہزاروں شاگرد پیدا کئے جو اس وقت ملک کے مختلف شعبہ جات میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بشیر احمد صاحب نے فارغ رہنے کی بجائے ایک سکول چلانا شروع کردیا جس کا نام انہوں نے اپنے ایک کزن کمال کے نام پر رکھا دونوں افراد کی تعلیم دوستی زبان زد عام تھی آج بھی اس ادارہ میں سینکڑوں بچے ایک وسیع و عریض اور کشادہ سکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں مگر اس کی فیس پرائیویٹ سکولوں سے کہیں کم ہے اس وقت سکول کو بشیر صاحب کے برخوردار عامر بشیر چلا رہے ہیں جو اکثر اپنے والد صاحب سے فیس میں اضافہ کا تکرار کرتے مگر بشیر صاحب ان کو اس طرح کی عملی مثال دیتے کہ عامر کے لیے جواب دینا مشکل ہوجاتا۔ عامر نے جب ایک مرتبہ سکول کی فیسوں میں اضافہ کا بہت تکرار کیا تو بشیر صاحب نے اس کے آگے نوائے وقت اخبار کا وہ صفحہ رکھ دیا جس پر ایک خبر تھی کہ ایک باپ نے غربت کے ہاتھوں خودکشی کرلی بشیر صاحب گویا ہوئے کہ عامر تو تعلیم و تربیت کو بڑھانے کا سوچ جس نے اس ملک و قوم کو فائدہ دینا ہے فیسوں میں اضافہ تو صرف تجھے اور مجھے فائدہ دے گا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے سکولوں میں انرولمنٹ بڑھانے کے اقدامات قابل ستائش ہیں مگر بحثیت قوم ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے ملک میں غربت کا خاتمہ ہوسکے اور والدین اپنے معصوم بچوں کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی بجائے انہیں تعلیم دلوانے میں پیش پیش ہوں۔اسی طریقہ سے استاد کی عزت کو بھی بحال کرنا ہوگا جس میں معاشرہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو خود بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ فی زمانہ اساتذہ بچوں پر توجہ دینے کی بجائے سیاسی روابط پر زیادہ زور دے رہے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کے معاملے میں ان کا اثرورسوخ استعمال کرسکیں حالانکہ ان کے عملی اقدامات اس طرح کے ہونے چاہیے کہ طلبائ￿ وطالبات ان کی آواز بنیں اور یہ سب ان کی آواز تب ہی بن سکیں گے جب استاد روحانی باپ ہونے کا کردار عملی طور پر ادا کرے گا ابھی سے اساتذہ علم فراہم کرنے کی بجائے کلرک کی طرح آٹھ سے چار تک نوکری کرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں استاد اور طالبعلم کے رابطہ کے حوالے سے جتنے ذرائع دستیاب ہیں ان کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی پہلے علم کی تلاش میں طالبعلم استاد کو تلاش کرتے تھے اور استاد بھی اپنے شاگردوں کی تشنگی دور کرنے میں مکمل معاونت فراہم کرتے تھے اب روابط کے ذرائع بھی بڑھ گئے ہیں اور تشنگی بھی مگر اس کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات خال خال ہی نظر آرہے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...