سُنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے یہ تاریخی سچائی بین الاقوامی سیاسی تعلقات کی بجائے اندرونی سیاسی تعلقات کے حوالے سے زیادہ سچی لگتی ہے۔ مثلاً امریکہ، چین، ترکی اور عرب ہمارے دوست تھے لیکن مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ امریکہ، چین، ترکی اور عرب ذوالفقار علی بھٹو کے دوست تھے لیکن پھر بھی انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ امریکہ، چین، ترکی اور عرب پاکستان کے دوست تھے لیکن ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا نام آتا رہا۔ امریکہ، چین، ترکی اور عرب نواز شریف کے دوست تھے لیکن پھر بھی انہیں اقتدار سے نکال دیا گیا۔ بھارت پاکستان کا دشمن ہمسایہ تھا اور برادر اسلامی ہمسایہ افغانستان بھی دوست نہ تھا۔ بھارت اب بھی دشمن ہمسایہ ہے اور برادر اسلامی ہمسائے افغانستان سے پاکستان کو اب بھی خطرہ ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان جتنے شکوک و شبہات پہلے تھے، اتنے ہی شاید اب بھی ہیں۔ گویا پاکستان کے لئے انٹرنیشنل طاقتوں کے کھیل میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اس کے برعکس ملک کے اندر مختلف طاقتوں کے درمیان دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہی ہیں۔ مثلاً ایک زمانے میں ایم کیو ایم کراچی کی مطلق العنان واحد سُپرپاور تھی۔ اب وہی ایم کیو ایم یعنی متحدہ قومی موومنٹ، منتشر قومی موومنٹ یا مختصر قومی موومنٹ کہلا کر مذاق بن رہی ہے۔ ایک زمانے میں فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی پیپلز پارٹی کی آنکھ کے تارے تھے۔ اب انہی سے پیپلز پارٹی فاصلے پیدا کر رہی ہے۔ ایک زمانے میں عمران خان پسندیدہ برخوردار بنائے گئے تھے لیکن اُن پر انویسٹمنٹ کرنے والے اب عمران خان میں سیاسی میچورٹی نہ ہونے سے مایوس ہوکر کسی اور سیاسی جماعت کو درمیانی راستے کے طور پر تلاش کر رہے ہیں۔ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی ہر طرح کے رسک کے ساتھ ساتھ سیکورٹی رسک بھی تھی۔ لہٰذا اُس وقت کی جمہوریت میں پیپلز پارٹی کا رسک لینا کسی کو گوارہ نہ تھا۔ اب وہی پیپلز پارٹی درمیانی راستے کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔ ایک زمانے میں پیپلز پارٹی کو سیاسی موت سُلانے کے لئے اُس کے پر پرزے مسلسل کاٹے گئے۔ پیپلز پارٹی کے دیرینہ وفاداروں سے پیپلز پارٹی چھڑوا کر دوسری قابلِ قبول جماعتوں میں شمولیت کے اعلانات کروائے گئے۔ جنہوں نے پیپلز پارٹی سے وفاداری نہیں بدلی انہیں مختلف مقدمات کے شکنجے میں کس دیا گیا مگر اب پیپلز پارٹی بلیک ایریے سے نکل کر پسندیدہ ایریے کے کنارے پر پہنچ چکی ہے جبکہ پیپلز پارٹی والی پرانی صورتحال ن لیگ کو درپیش ہے اور ن لیگ پسندیدہ ایریے سے نکل کر بلیک ایریے کے کنارے پر کھڑی ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان کی اندرونی سیاست میں کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے بداعتمادی اور غیریقینی والے مستقل رویے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کتابی جمہوریت کو آئیڈیالائز کرکے چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی بجائے اووَر ایکٹو ہونے کی کوشش کرتی ہیں ۔ غریب اور ماتحت جمہوریتوں میں انقلابی چھلانگیں مارنے کی بجائے منزل کی طرف ہرقدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوتا ہے ورنہ زندہ جمہوریت کی جگہ ’’سٹیچو ڈیموکریسی‘‘ کھڑی کردی جاتی ہے جس میں روح کی بجائے بھوسہ بھرا ہوتا ہے۔ غیرجمہوری رویوں کے خلاف جمہوریت کے تیز لمبے دانتوں اور پنجوں پر مان کرنے والے سیاسی لیڈروں کو قربانیوں کے ساتھ ساتھ سمجھداری کا رول ماڈل بھی ہونا چاہئے۔ پرانے زمانے کی ایک کہانی ہے کہ جنگل کے کنارے ایک گائوں آباد تھا۔ ایک مرتبہ اُس جنگل میں شیر آگیا۔ شیر گائوں میں تانک جھانک کرنے کے ساتھ ساتھ دیہاتیوں کے کام میں مداخلت بھی کرنے لگا۔ گائوں کے لوگوں میں شیر کی غیر جنگلی حرکتوں کے باعث بے چینی پھیلنے لگی اور انہوں نے اپنے گھروں کے اردگرد دیواریں بھی اونچی کرلیں تاکہ شیر اُن کی ذاتی زندگیوں میں مخل نہ ہو لیکن شیر کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتا۔ ایک دفعہ گائوں کی سب سے خوبصورت دوشیزہ کنوئیں سے پانی بھرنے گئی تو شیر کی نظر اُس پر پڑ گئی۔ شیر نے لڑکی کے باپ کو شادی کا پیغام بھیجا۔ لڑکی کے باپ نے شیر کی خواہش یہ کہہ کر مسترد کردی کہ جانور اور انسان میں شادی نہیں ہوتی۔ شیر لڑکی کے باپ کے انکار پر غصے میں آگیا۔ اُس نے دھاڑتے ہوئے وارننگ دی کہ اگر تم نے اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے نہ کی تو میں تم سب کو کھا جائوں گا اور لڑکی کو اُٹھا کر جنگل میں لے جائوں گا۔ لڑکی کا باپ بہت پریشان ہوا اور اُس نے گائوں کے بڑوں سے مشورہ کیا۔ کچھ دنوں بعد شیر لڑکی کے باپ کے پاس رضا مندی پوچھنے دوبارہ آیا۔ لڑکی کے باپ نے شیر سے کہا کہ میں تمہاری بات مان لوں گا اور اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کردوں گا لیکن میری صرف ایک شرط ہے۔ شیر نے سوچا کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، میرے لئے ہر شرط پوری کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا اُس نے لڑکی کے باپ سے پوچھا کہ بتائو کیا شرط ہے؟ لڑکی کے باپ نے کہا کہ میری لڑکی بہت ہی معصوم اور نرم و نازک ہے جبکہ تم جنگلی ہو، تمہارے دانت اور پنجوں کے ناخن بہت تیز اور لمبے ہیں۔ وہ انہیں دیکھ کر خوفزدہ ہو جائے گی۔ میری شرط یہ ہے کہ شادی سے پہلے میں تمہارے دانت اور پنجوں کے ناخن نکال دوں گا۔ شیر نے کچھ سوچا۔ پھر لڑکی کے حاصل ہو جانے کی خوشی میں ایسا کروانے پر تیار ہوگیا۔ لڑکی کے باپ نے زنبور سے شیر کے سارے دانت اور پنجوں کے ناخن نکال دیئے۔ شیر کو بہت تکلیف ہوئی لیکن خوبصورت لڑکی کے ملاپ کے احساس نے اُس کا یہ درد کم کر دیا۔ لڑکی کا باپ جب شیر کے دانت اور پنجے نکال چکا تو اُس نے پاس پڑی ایک رسی اُٹھائی اور اُسے شیر کے گلے میں ڈال دیا۔ لڑکی کا باپ رسی کا سرا پکڑ کر شیر کو گھسیٹتے ہوئے اپنے گھرکے پچھواڑے بکریوں کے باڑے میں لے آیا۔ اُس نے شیر کو ایک درخت کے ساتھ مضبوطی سے باندھا اور اُس کے آگے گھاس ڈال دی۔ چند دن بعد گائوں کے لوگ اُس کی بیٹی کی بارات لے کر آئے اور گائوں کا ایک کڑیل جوان اُس خوبصورت دوشیزہ کو بیاہ کر لے گیا۔ تب ایک شرارتی بکرے نے شیر کے کان میں کہا کہ شیر کی اصل طاقت اُس کے دانتوں اور پنجوں میں ہوتی ہے۔