اسلام آباد (وقت نیوز) وفاقی خاتون محتسب برائے انسداد ہراسیت بمقام کار کشمالہ طارق کے دفتر میں وقت نیوز کے صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کشمالہ طارق نے چند روز قبل انٹرویو کے لئے حامی بھری تھی۔ گزشتہ روز جب وقت نیوز کی ٹیم کشمالہ طارق کا انٹرویو کرنے گئی تو اینکر پرسن مطیع اللہ جان کے چبھتے سوالات پر کشمالہ طارق بتدریج صبر کا دامن چھوڑنے لگیں۔ دوران ریکارڈنگ خاتون وفاقی محتسب نے مزید سوالات کا جواب دینے کی بجائے انٹرویو کو جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں وفاقی محتسب نے کیمروں کی ٹیپ اور فوٹیج حاصل کرنے اور انٹرویو کو چلنے سے روکنے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ وقت نیوز کی ٹیم کے انکار کے بعد خاتون وفاقی محتسب نے اپنے سٹاف کو بلا کر کیمرے چھیننے اور وقت نیوز کی ٹیم کو کمرے میں بند کرنے کا حکم دے دیا۔ اس دوران دس سے بارہ لوگ زبردستی میڈیا ٹیم سے کیمرے چھیننے کے لئے لپکے‘ مزاحمت پر وقت نیوز کی ٹیم کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔ اینکر پرسن مطیع اللہ جان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور موبائل فون بھی چھیننے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران پولیس بھی وفاقی محتسب کے دفتر میں پہنچ گئی مگر وقت نیوز کی ٹیم کو وہاں سے بازیاب کرانے میں ناکام رہی اور خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ بارہا کشمالہ طارق کے سٹاف نے وقت نیوز کی ٹیم سے کیمرے چھیننے اور باہر نکلنے کی کوششوں پر دست و گریبان کیا۔ متعدد صحافیوں اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے آنے پر دونوں فریقین نے اپنی اپنی شکایات پولیس کو درج کرائیں جس کے بعد ٹیم کو وہاں سے جانے دیا گیا۔ وفاقی محتسب بننے کے بعد سے اپنا اپنا گریبان کی ٹیم کی کشمالہ طارق سے انٹرویو کے لئے بات چیت چل رہی تھی۔ دو دن پہلے کشمالہ طارق کی طرف سے اس انٹرویو کے لئے حامی بھری گئی تھی۔ کشمالہ طارق کے آفس سے جاری ہونے والے ٹائم ٹیبل کے مطابق ٹیم کو 11:30 بجے صبح کشمالہ طارق کا انٹرویو کرنا تھا۔ دوران ریکارڈنگ اینکر پرسن مطیع اللہ جان کی جانب سے کشمالہ طارق سے مختلف پارٹیوں کے ساتھ ان کی وابستگی اور وفاداری کے حوالے سے سوالات کئے گئے انہی میں ایک سوال یہ تھا کہ اگر آپ ایک پارٹی کے ساتھ وفادار نہیں رہیں تو آپ اپنے اس منصب کے ساتھ کیسے وفادار رہیں گی۔ کشمالہ سے ایک سوال یہ کیا گیا کہ وفاقی محتسب کے لئے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کیا آپ اس طریق کار سے واقف ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں جنہوں نے مجھے اس پر تعینات کیا ہے۔ اینکر پرسن مطیع اللہ جان نے کشمالہ طارق کو وہ قانون پڑھ کر سنایا جس کے تحت وفاقی محتسب کی تقرری کی جاتی ہے۔ اینکر نے جب کشمالہ سے مشرف دور میں ان کی حمایت اور اس دور میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پوچھا کہ آپ نے ان خلاف ورزیوں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ اس کے جواب میں کشمالہ نے کہا کہ انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ You have to be every where۔ اس کے بعد کشمالہ نے مطیع اللہ جان سے کہا کہ آپ مجھ سے میری پوسٹ کے حوالے سے سوالات کریں ایسے سوالات نہ کریں جن سے لگے کہ آپ کسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ وقت نیوز کے اینکر نے سوال کیا کہ آپ کے ادارے کے دائرہ اختیار کے حوالے سے بھی کافی بحث ہوتی ہے‘ یہاں سے جو ٹرائل ہوتا ہے اس پر ہائی کورٹ سے سٹے مل جاتا ہے جس کے جواب میں کشمالہ طارق نے کہا کہ میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہوں گی۔ مختلف پارٹیز سے اپنی شمولیت اور انہیں چھوڑنے کے حوالے سے کشمالہ کہنے لگیں کہ آپ کو بھی تو فوج سے نکالا گیا ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو فوج سے کیوں نکالا گیا۔ مطیع اللہ جان نے پوچھا کہ آپ وجہ بتائیں کہ کیوں نکالا گیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ پر ہراساں کرنے کا الزام تھا جس کی وجہ سے آپ کو فوج سے نکالا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب آپ نے میری اس بات کو چلانا بھی ہے جس کے جواب میں مطیع اللہ جان نے کہا کہ جی بالکل میں آپ کی اس بات کو چلاؤں گا۔ آخر میں اینکر پرسن مطیع اللہ جان نے وفاقی محتسب کے دائرہ اختیار اور کارکردگی کے حوالے سے سوالات کئے جس کے جواب میں کشمالہ طارق نے کہا کہ "That,s enough Matti" جس کے بعد وہ اٹھ گئیں اور انہوں نے کہا مطیع آپ نے غلط کیا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ آپ غصے میں کیوں تھیں۔ اس دوران ان کی نظر کیمرے پر پڑی۔ انہوں نے کہا کہ کیمرہ مجھے دکھائیں اور کیمرے کو پکڑنے کی کوشش کی۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ ہم آپ کو خود دکھا دیتے ہیں مگر آپ کیمرے کو ہاتھ مت لگائیں۔ اس تلخ کلامی کے بعد انہوں نے سٹاف کو بلا کر ٹیم کو یرغمال بنا لیا۔