RSS شکنجے میں… ’سیون سسٹرز ‘بھی ؟؟

یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ گذشتہ ہفتے ہونے والے بھارت کے تین صوبوں تریپورہ: میگھالے اور ناگالینڈ کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں BJP اور اس کے اتحادیوں نے بھاری اکثریت سے جیت حاصل کی اور تریپورہ میں تو اسے دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت ملی جس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کس سرعت سے پھیل رہی ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی صوبے تریپورہ میں اسمبلی انتخابات میں بائیں بازو کی شکست ہونے کے بعد پوری ریاست میں سخت کشیدگی کا ماحول ہے کیونکہ زعفرانی لباس میں ملبوس بی جے پی اور RSS کے کارکنوں نے جگہ جگہ بائیں بازو کے نظریات کے حامل لوگوں پر حملہ کیا اور گھروں تک میں گھس کر ان سے مارپیٹ کی گئی اور شدید تشدد کے سبب کئی کی حالت نازک ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی تریپورہ کے بیلونیا شہر میں بی جے پی حامیوں اور کارکنوں نے روسی انقلاب کے ہیرو ’’لینن‘‘ کے مجسمے کو منہدم کر دیا۔ اس مقصد کے لئے جنونی ہندو خصوصی طور پر بلڈوزر لائے جس کی مدد سے اس مجسمے کو مسمار کیا گیا، اس دوران بائیں بازو کے نظریات کے بارے میں سخت نازیبا نعرے بازی کی گئی۔ 25 برسوں تک تریپورہ میں برسر اقتدار رہنے والی جماعت سی پی آئی ایم کے بیلونیا کے سیکرٹری جنرل ’’تپس دتا‘‘ نے بتایا کہ سنگھ پریوار کے گرگوں نے مجسمہ منہدم کرنے کے بعد وہیں لینن کے مجسمے کے سر سے فٹ بال کھیلا؎
سبھی جانتے ہیں کہ ولادیمیر لینن کا شمار کمیونسٹ سوچ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 1893ء میں روس میں کمیونزم کے نظریہ کی تشہیر شروع کی تھی اور روسی کیمونسٹ پارٹی قائم کی۔ انہوں نے اسکرا اور ’’پراودا‘‘ نامی روسی اخباروں کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر کمیونسٹ انقلاب کے نقیب بنے۔ 1917ء میں لینن نے اس وقت کی حکومت کا تختہ پلٹا اور سوویت حکومت کی تشکیل ہوئی۔
مبصرین نے کہا ہے کہ اس امر پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے ان متشدد واقعات کی مذمت کرنے کے بجائے 6 فروری کو دہلی میں بی جے پی کی پارلیمانی کمیٹی میں کہا کہ دنیا بھر کے اکثر خطوں کی مانند بھارت میں سے بھی جلد کیمونسٹوں کا صفایا ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان میں صرف کیرالہ میں ابھی بائیں بازو کا اقتدار بچا ہے جو جلد ہی خاتمے کے قریب ہے۔ مودی نے اس کے علاوہ بھی لیفٹسٹس کے بارے میں وہ زہرافشانی کی جس کی مثال خال خال ہی نظر آتی ہے۔ علاوہ ازیں بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے بھی چند روز قبل 6 مارچ کو یاوا گوئی کی حدود کو چھوا اور لینن کے مجسمے کو توڑے جانے پر ازحد مسرت کا اظہار کرتے کہا کہ ’’لینن ایک دہشتگرد تھا اور کسی دہشتگرد کا مجسمہ مودی کے ہوتے ہوئے ہندوستان میں نصب نہیں رہ سکتا‘‘۔
سنجیدہ ماہرین کے مطابق پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کیلئے یہ امر توجہ طلب ہونا چاہیے کہ ان مذکورہ صوبوں میں سے دو میں، یعنی ناگالینڈ اور میگھالے میں بھاری اکثریت عیسائی ہے۔ ناگا لینڈ میں 87.93 فیصد جبکہ میگھالے میں 75 فیصد عیسائی آبادی ہے۔ ایسے میں اسے بظاہر مودی کی کامیابی سے ہی تعبیر کیا جانا چاہیے کہ انھوں نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے ان صوبوں میں جیت حاصل کی۔ بھارت کے شمال مشرق میں واقع سات صوبے جنہیں ’’سیون سسٹرز‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ان میں میزورام کو چھوڑ کرباقی چھ یعنی میگھالے، ناگالینڈ، تریپورہ، آسام، منی پوراور مقبوضہ اروناچل پردیش میں BJP اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے۔ ایسے میں محققین کو اس صورتحال کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے…!!

ای پیپر دی نیشن