میں حیران و ششدر رہ گیا کہ ڈاکٹر آصف جاہ وہ کچھ کر سکتے ہیں جو بھارت جیسی سپر طاقت بھی نہ کر سکی۔ اس نے تو سرجیکل اسٹرائیک کے خالی خولی دعوے کئے اور اپنے عوام کو بیوقوف بنایا مگر ڈاکٹر آصف جاہ نے بلوچستان کے سیلاب زدگان کی فوری دستگیری کر کے ایسی امدادی سرجیکل اسٹرائیک کی کہ میں حیران و ششدر رہ گیا۔
رحمت کی بارشیں بلوچستان کے لئے زحمت بن گئیں۔ ایک چھت ڈھیر ہو گئی اورا س کے نیچے پانچ معصوم بچے دب کر مٹی کا ڈھیر ہو گئے۔ یہ کسی ماں کی گود کا تارہ تھے، کسی باپ کا مستقبل تھے۔ ایک چھت کا کیا ذکر چھتوں کی چھتیں گر گئیں، پورے کا پورا گائوں زمیںبوس ہو گیا۔ ریل کی پٹری منہ زرو سیلابی ریلے کے سامنے بہہ گئی۔کئی علاقوں سے ملک کا رابطہ کٹ گیا۔ ایسی آفت میں صرف پاک فوج ہی امدادی کاروائیوں کے لئے حرکت میں آتی ہے اور خبریں آئیںکہ فوج کے جوانوںنے کئی لوگوں کو ریسکیو کیا اور کئی لاشیں ان کے پیاروںکے ساتھ مل کر دفن کیں۔ یہ کام تو فوج نے کیا۔ فوج ہی یہ کام ہمیشہ کرتی چلی آ رہی ہے مگر میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ کام تو ڈاکٹر آصف جاہ کی تنظیم کسٹمز ہیلتھ کیئر بھی کر سکتی تھی مگر آصف جاہ لاہور سے تبدیل ہو کر اسلام آباد کے ہو چکے۔ اور ان پر محکمے کی بھاری ذمے داریاں عائد ہیں وہ کشمیر اور افغان ٹریڈ کے معاملات کو دیکھتے ہیں ۔ ان سے رابطہ کیسے کرتا اور کیسے حال دل بیان کرتا کہ کاش۔ بلوچستان جیسے دور افتادہ علاقے میں ڈاکٹر صاحب کے رضا کار بھی پہنچیں۔ نجی سیکٹر میں جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت بھی لوگوں کی امداد میں پیش پیش رہتی ہے اور اگر فلاح انسانیت پر پابندی نہ ہو تو ان کے رضا کار بھی مصیبت کی گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، دو ہزار پانچ کا زلزلہ آیا تو ملک کے دارلحکومت کا مارگلہ ٹاور تباہ ہو گیا۔ یہاں اسی تنظیم کی ایمبولنس سب سے پہلے پہنچی تھی اور کنٹرول لائن اور مظفر آباد میں تو انہی کے کارکن امداد کے لئے موجود تھے۔یہاں تو فوج نے بھی دو روز بعد کارروائی کی تھی اور ا سکی وجہ معقول تھی کہ زلزلہ مہینے کے پہلے ہفتے کے روز آیا اس دن فوج کو چھٹی ہوتی ہے،۔ جوان تنخواہ لے کر گھر کے لئے راشن خریدتے ہیں اگلے رو زاتوار تھا۔ ا سلئے فوج کو پیر کے روز جنرل مشرف متحرک کر پائے، اس تاخیر پر جنرل صاحب نے قوم سے معذرت بھی کی تھی۔
میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ بلوچستان جیسے دور افتادہ اور پس ماندہ ، ملک سے کٹے ہوئے علاقوں میں ڈاکٹر آصف جاہ کے رضا کار پہنچ جائیں گے، مگر یہ انہونی ہو گئی۔ یہ انہونی نہیں ایک معجزہ ہے جو ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں مصیبت کی ہر گھڑی میں رونما ہوتا رہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ڈاکٹر صاحب نے اپنے کارکنوں کی امدادی سرگرمیوں کی تصاویر شیئر کیں تو میں حیران و ششدر رہ گیا۔ کہ اے خدا! تو نے آصف جاہ کے دل کو کیا تڑپ نصیب کی۔بلا شبہ ڈاکٹر صاحب سیماب صفت انسان ہیں ، میںیہ مذاق سے کہاکرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب تو بے چینی سے کسی قدرتی آفت کا انتظار کرتے ہیں۔ ادھر زلزلے کے جھٹکے لگے۔ ادھر ان کے رضاکاروں کے قافلے حرکت میں آگئے، ادھر سیلاب نے تباہی مچائی ،۔ ادھر ان کے رضاکار طوفانی لہروں سے کھیلتے ریسکیو میں جت گئے، ادھر کسی ملک سے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیاا ور ادھر ایک ناممکن کام ڈاکٹر صاحب کے ساتھیوںنے انجام دے دیا ، بنگلہ دیش میں روہنگیا آئے لاکھوں کی تعداد میں آئے، بنگلہ دیش پاکستانیوں کو ویزہ نہیں دیتا ، پاکستان کا نام سننا گوارا نہیں کرتا مگر وہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے نقب لگائی اور اپنے کیمپ قائم کر دکھائے، شام کے مہاجرین ترکی پہنچے تو ڈاکٹر صاحب بے تاب ہو گئے، دو بار ترکی کا سفر کر چکے ہیں اور شام کے اندر جا کر بھی تباہ حال خاندانوں کی مدد اپنے ہاتھوں سے کرنے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔ یہ شرف انسانیت ہے جواللہ نے ڈاکٹرصاحب کے نصیب میں لکھ دیا ہے۔
آواران کے زلزلہ زدگان کی امداد تو انتہائی مشکل، کٹھن اور نا ممکن کام تھا۔ آواران کا علاقہ پاکستانیوں کو اپنے ہاں قدم نہیں رکھنے دیتا۔ فلاح انسانیت کے سربراہ کو تو ایک رات کے لئے علیحدگی پسندوںنے قید میں رکھا، ان کے ساتھی سمجھ رہے تھے کہ بس مولانا شہید ہو چکے ، ڈاکٹر آصف جاہ اپنی امدادی ٹیم کے ساتھ خود آواران گئے، انہیں بھی کام سے روکا گیا مگر ان کے پا س تو دوائیں تھیں۔جب انہوںنے زخمیوں کا علاج شروع کیا تو علاقے کے لوگ خود زخمیوں کو اٹھا کر ان کے پاس لانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے آواران میں اسکول بنائے اور پہلی بار ان اسکولوں میں پاکستان کا قومی ترانہ گایا گیا۔اب یہی ڈاکٹر آصف جاہ اور ان کے رضاکار بلوچستان کے بارشوں سے تباہ حال لوگوں کی مدد میں مصروف ہیں۔ میں حیران ہوں کہ اتنی تیزی سے یہ لوگ امدادی کاموں کے لئے وہاںکیسے پہنچ گئے ، ملک میں ایک ہی منظم ادارہ ہے اور وہ ہے فوج کا، اس کی چھائونیاںپورے ملک میں ہیں، ان کے پاس رات اور دن کے وقت کے لئے ہیلی کاپٹر بھی موجود ہیں ۔ ان کے لیے کہیں بر وقت پہنچ جانا مشکل نہیں مگر کسٹمز ہیلتھ کیئر کے رضاکار کیسے بر وقت حرکت میں آ گئے۔ یہ میرے لئے راز کی بات تھی۔ اس راز تک پہنچنے کے لئے مجھے ڈاکٹر صاحب کو کال کرنا پڑی بلکہ خود ان کی کال آ گئی ۔ وہ بڑے عاجزانہ لہجے میں کہہ رہے تھے کہ الحمد للہ ہم لوگ بلوچستان کے سیلاب زدگان کی امداد میں دن رات مصروف ہیں، میںنے پوچھا ،ا س قدر شتابی سے کیسے حرکت میں آئے، کہنے لگے کہ آواران اور زیارت کے زلزلوں کی وجہ سے ہم نے وہاں ایک مستقل تنظیمی ڈھانچہ بنا رکھا ہے۔ پہلے تو صرف راشن فراہم کرتے تھے۔ اب مکانوں کی تعمیر بھی کر رہے ہیں اور اسکولوںکا جا ل بھی پھیلا رہے ہیں ساتھ ساتھ ڈسپنسریاں بھی قائم کر رہے ہیں۔ اس لئے جیسے ہی سیلاب کی تباہی کی خبریں آئیں تو ہم امداد کے لئے بالکل تیار تھے۔ پہلے مرحلے میں تو لوگوں کو خوراک کی اشیا درکار ہوتی ہیں۔انہیںخیمے بھی چاہئیں۔ دوا دارو بھی چاہئے۔ اگلے مرحلے میں ان کوگھر بنا کر دیں گے ۔ اس کے لئے ہمیں ہمیشہ کی طرح اصحا ب خیرو برکت کا تعاون چاہئے۔ ہم تو لوگوں کی امانتیں حقداروں تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں اللہ یہ توفیق دے اور صدقات، خیرات، زکوۃ دینے والے اپنا فریضہ ادا کرتے رہیں اوراس طرح ایک ایساسلسلہ چلتا رہے گا کہ حاجت مندوں کی بر وقت مدد ہو گی۔ بلوچستان کے لئے ہمیں خصوصی کاوش کرنی چاہئے۔ یہ علاقہ پہلے ہی شکوے شکائتوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہاں حکومتی فنڈ ضرور جاتے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ سب کچھ کرپشن کی بھینٹ چڑھ جاتاہے اب وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن پر ہاتھ ڈالا ہے اورا سکی روک تھام کے لئے کوشش ہو رہی ہے۔ امید رکھنی چاہئے کہ بلوچ بھائیوں تک بھی قومی خزانے کاپورا حصہ پہنچے گا،۔ ان کی سڑکیں بنیں گی۔ ان کے لئے گھر بنیں گے۔ ان کے لئے اسکول بنیں گے۔ ہسپتال بنیں گے اور ہنر سکھانے کے مرکز قائم ہوں گے۔ گوادر کی ترقی سے بڑی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں ۔ ساتھ ساتھ صاحب خیر بھی سرگرم کردار ادا کریں تو نجی شعبے کی رضا کار تنظیمیں بھی اپنا حصہ ڈالیں گی اور یوں بلوچستان کے ساحلوں پر اب تک ہم نے سورج کو غروب ہوتے ہی دیکھا ہے،۔ آئندہ یہاں سے خوش حالی اورترقی کا سورج طلوع ہونے کا دل فریب منظر بھی ہمیں دیکھنے کو ملے گا۔
ڈاکٹر صاحب نے تھر کی حالت بدل دی ہے۔ سارے تھر کی تو نہیں مگر جہاں تک پہنچ سکے ہیں۔ وہاں ایک سبز انقلاب کی دستک سنائی دے رہی ہے۔ یہ شاہنامہ ایک آدھ روز کے وقفے سے !