میرے والد محترم سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل حمید گل مرحوم فرماتے تھے ’’ جب تاریخ رقم ہوگی تو لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے روس کو شکست دی اور پھر لکھا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کے ذریعے ہی امریکہ کوشکست دیدی ‘‘۔
آج دو دہائیوں بعد فاتح افغانستان ، مجاہد اسلام جنرل حمید گل مرحوم کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی اور دنیا کی سپر پاور کہلوانے والا امریکہ افغان سر زمین سے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوگیا بلاشبہ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین طے پایا جانے والا امن معاہدہ جری و بہادر ، غیورجذبہ جہاد سے لبریز افغانی طالبان اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا مر ہون منت ہے کہ قبل ازیں اسی خطے میں اس وقت کی ایک بڑی طاقت سوویت یونین کا تکبر اور غرور خاک میں ملا دیا گیا تھا ۔آج 19 سال بعدجدید ٹیکنالوجی و مہلک جنگی ہتھیاروں سے لیس اقوام عالم کی نمبر ون عسکری و فوجی قوت کو سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑوں میں دھول چٹوا دی ۔یہ وہی امریکہ ہے جس نے نائن الیون کا بہانہ بنا کر ایک مفلوک الحال غریب ملک کو تر نوالہ سمجھ کر ہضم کرنا چاہا اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کو جواز بنا کرنہتے و مظلوم شہریوں کوبربریت کا نشانہ بناڈالا ۔ ان افغانی شہریوں پر مدر بموں سے بمباری کرتے ہوئے تباہی اور بربادی کے ہولناک مناظر دہرائے گئے۔ افسوس دنیا کی تمام قوموں کے محافظ اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنے والے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں نے بھی ظلم ڈھانے میں پورا پورا ساتھ دیا ۔ حالانکہ سابق آئی ایس آئی ایس چیف جنرل حمید گل صاحب نے کوشش کی تھی کہ مسئلہ گفت وشنید سے حل کر لیا جائے امریکہ افغانستان پر فوجی چڑھائی کا فیصلہ بدل دے اس سلسلے میں افغان قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا ۔ ایک جیوری بھیجنے کی تجویز بھی امریکہ کو پیش کی گئی تھی جوانکوائری کرے کہ واقعی اسامہ بن لادن نائن الیون جیسے واقعے میں ملو ث ہے یا نہیں؟ ۔دنیا نے دیکھا کہ افغانی طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں پلاننگ کی جاتی ہے ۔ افغانستان کو نشانہ بنانے کے لئے پائلٹوں کوٹریننگ امریکہ میں دی جاتی ہے اور سلامتی کونسل میں 48 ملکوں کی رضامندی سے امریکی فوج افغاانستان پر چڑھ دوڑتی ہے۔ 19 سال بعد تاریخ نے انصاف کرتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے پیاس بجھانے والے گھمنڈی امریکہ کا اسی جاہل ، اجڈ ، ان پڑھ ملائوں کے آگے سر جھکا دیا۔ اسے اپنی فوجیں بحفاظت یہاں سے نکانے کیلئے طالبان سے امن کی بھیک مانگنا پڑی۔ قطر کے دارلحکومت دوحہ میں انس حقانی اور ملا برادر سے ہاتھ ملایا گیا اور انہی افغان طالبان رہنمائوں کے دستخط سے مذکورہ معاہدہ ممکن ہو سکا معاہدے کے تحت اگلے 14 ماہ میں امریکی فوج مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائے گی ۔ 5ہزار سے زائد طالبان کے جنگی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ بھی اس معاہدے کی اہم شق ہے۔صدر ٹرمپ نے جارحانہ کے بجائے مصلحت پسندانہ پالیسیاں اختیار کیں جن کی مثال شام ، کوریا اور اب افغانستا ن ہے۔یقینا دوحہ میں ہونے والا امن معاہدہ دیر پا ثابت ہوگا کیونکہ امریکہ نے تسلیم کر لیا ہے کہ و ہ جنگ نہیں جیت سکتاتھا ، مذکورہ معاہدے سے ٹرمپ کے الیکشن میں فائدہ ہوگا کیونکہ انہوں نے عوام سے فوجی انخلاء کا وعدہ کر رکھا تھا ۔جنگِ افغانستان سے متعلق خفیہ دستاویزات سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس خطے میں امریکی مہم بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے، جس کی وجہ سے امریکی فوج اور حلیف ممالک کی فوجوں کے مقتولین میں مسلسل اضافہ ہوا ، دو دہائی گزرنے کے باوجوددسیوں ہزار شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ امریکہ اکتوبر2001 ء سے مارچ2019 ء تک افغانستان میں اپنی فوجی کاروائیوں پر 760ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ ۔ اس دوران3200 امریکی فوجی مارے گئے ،20500 زخمی ہوئے۔ نیٹو اور اتحادی ممالک کے بھی 1145 فوجی مارے گئے ، اس وقت 13000 امریکی فوجی افغانستان میں ہیں، یہ تعداد صرف فوجیوں کی ہے، جب کہ دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں میں بھی بڑی تعدا ہلاک ہوئی ہے، اس دوران ہلاک ہونے والی افغانی فوجیوں کی تعداد 64124 بتائی گئی ہے۔جبکہ افغانی صدر کے مطابق جب سے انھوں نے صدارتی منصب سنبھالا ہے 45000 افغانی فوجی مارے گئے ۔یہ نقصان کوئی معمولی نقصان نہیں ہے، اس کا اثر امریکی معیشت پر بھی پڑا ہے اور امریکہ کو اس جنگ سے جو فائدے حاصل ہونے کی توقع تھی وہ توقع بھی پوری نہیں ہوسکی۔
قارئین کرام آج وہی امریکہ اور وہی یونائٹیڈ نیشن ہے ۔ اپنے مفادات کی خاطر ان دہشت گرد افغان طالبان سے ڈیل بھی کر لی گئی اور آئندہ چند مہینوں کے اندر سلامتی کونسل سے اس معاہدے کی توثیق بھی کروا لی جائے گی ۔یقینا افغانی طالبان و امریکی معاہد ے سے اسلام دشمنوں بالخصوص ہمارے ازلی دشمن بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے جس نے 4.2 بلین ڈالرزکی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے کابل ، قندھار اور مزار شریف میں قونصل خانے کھول رکھے ہیں ۔ اپنے 700 انجنیئرز لوگوں کو ٹریننگ دینے کیلئے بھیج رکھے ہیں ۔ را، این ڈی ایس اور موساد کا گٹھ جوڑ سب کے سامنے ہے بلکہ سی آئی اے نے بھی پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ افغانستان کو بھارت نے دہشت گردی کا اڈہ بنا رکھا تھا اور وہاں سے ہندوستانی دہشت گرد پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اب اسے افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا ہو گا ۔ افغان طالبان نے برملا کہا ہے ، معاہدے میں بھی انہوں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور نہ ہی وہ آئندہ کسی گھنائونے کھیل کا حصہ بنیں گے ۔ اشرف غنی جو کل تک بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف زہر اگلتا رہا اس کو بھی امن ڈیل میں بادلنخواستہ پاکستان کا شکریہ ادا کرنا پڑا ۔ اشرف غنی ، عبداللہ عبداللہ اور حکمت یار کے درمیان سیاسی رسہ کشی عروج پر ہے۔ افغانستان میں نام نہاد صدارتی الیکشن کے بھی کوئی نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ انتخابات کا ڈھونگ بھی طالبان کا اثر کم کرنے کے لئے رچایا گیا تھا، یہ ایک سیاسی چال تھی جو ان پر ہی الٹی پڑ گئی۔ 3 کروڑ70 لاکھ آبادی والے ملک میں صرف 18 لاکھ ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ ٹرن آئوٹ نہایت کم رہا، جیتنے والے صدارتی امیدوار اشرف غنی کو صرف9 لاکھ ووٹ ملے اور عبداللہ عبداللہ کے حصے میں 7 لاکھ ووٹ آئے تھے۔96 لاکھ ووٹرز رجسٹرڈ تھے اورپندرہ ملین افراد نے اپنا نام رجسٹر ہی نہیں کروایا۔ ایسے میں کامیاب ہونے والے صدارتی امیدواروں کی نمائندہ حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟۔۔ ان انتخابات میں امریکی سردمہری بھی صاف نظر آئی۔ ا یسا لگ رہا تھا کہ واقعی امریکہ کو ان انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں البتہ حالیہ صدارتی الیکشن میں ہندوستان پوری طرح ملوث رہا۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ اشرفی غنی کو بھارت لیکر آیا اور سلسلے میں ہندوستان کو اسرائیل کی آشیر بادحاصل ہے اگر ماضی میں اشرف غنی کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی تو اب بھارت و اسرائیل ا س کی پشت پر ہیں وہ ہر گز نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کو ڈی نیوکلیئر رائز کرنے سے پہلے امریکہ یہاں سے جائے۔ لیکن دشمنوں کی سب تدبیریں ناکام ہو گئیں اور اسلام کے نظام کو قائم کرنے کیلئے لڑنے والوں کو اللہ نے فتح دی ۔ اشرف غنی امن معاہدے کو زک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں جبکہ ان کی اپنی صورتحال یہ ہے کہ ان کے گارڈز تک امریکی ہیں امریکہ اگر اپنا ہاتھ کھینچ لے تو وہ کہاں کھڑے ہو ںگے؟ ۔طالبان افغانستان کے 80 فیصد علاقے پر قابض ہیں اوران کی کامیابی کو تسلیم کیا گیا ہے بے شک حق کی جیت ہوئی ہے ۔ افغانستان میں اب طالبان کی حکومت آئے گی جو امریکہ یا روس کے خلاف نہیں بلکہ ایک ظالمانہ نظام کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔